جوبائیڈن کا ٹرمپ دور کی متعدد پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی کوششوں کا آغاز

نیویارک:امریکہ کی موجودہ انتظامیہ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متعدد پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس ضمن میں تازہ کوشش میں حکومتی سطح پر سائنس کو سیاسی رنگ دینے سے پیدا ہونے والے مسائل کو کھوجنے اور مستقبل میں سائنس کی ساکھ سے متعلق ضوابط کو سخت بنانا شامل ہے۔

بائیڈن حکومت نے سائنس کو سیاسی رنگ دینے سے روکنے کے لیے مرکزی سطح پر 46 رکنی نئی ‘سائنٹیفک انٹیگرٹی ٹاسک فورس’ تشکیل دی ہے، جس میں دو درجن سے زیادہ سرکاری محکموں کے ارکان شامل ہیں جو پہلی مرتبہ آئندہ جمعے کو اپنا اجلاس منعقد کریں گے۔

ٹاسک فورس کا کام 2009 سے ان شعبوں کی جانچ کرنا ہے جہاں جماعتی بنیادوں پر مداخلت کر کے ایسے فیصلوں پر اثر انداز ہوا گیا تھا، جو شواہد اور تحقیق کی بنیاد پر کیے گئے تھے۔

ٹاسک فورس کا کام ایسے راستے تلاش کرنا بھی ہے جو مستقبل میں کسی بھی حکومت کو سائنس کو سیاسی رنگ دینے سے روک سکیں۔بائیڈن حکومت کی جانب سے اس کوشش کا آغاز اس تشویش کی بنا پر کیا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے مبینہ طور پر سائنس کو اس طرح سیاسی رنگ دیا تھا جس سے انسانی جانیں خطرے میں پڑ گئی تھیں، عوام کا اعتماد کم ہوا تھا اور ماحولیاتی تبدیلی کا عمل بد تر ہو گیا تھا۔

سائنس دانوں اور دیگر ماہرین نے سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ پر الزامات عائد کیے تھے کہ انہوں نے کرونا وائرس اور ماحولیاتی تبدیلی کے معاملات پر مبینہ طور پر سائنسی شواہد کو نظر انداز کیا۔ سابق حکومت کے بارے میں یہاں تک کہا گیا تھا کہ اس نے 2019 میں آنے والے ‘ہری کین ڈورین’ نامی سمندری طوفان سے ریاست ایلاباما کو خطرہ ہونے سے متعلق مبینہ طور پر سائنسی شواہد کو نظر انداز کر دیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے متعلق دفتر میں آب و ہوا اور ماحول سے متعلق امور کی نائب ڈائریکٹر جین لب چینکو کا کہنا ہے "ہمارا مقصد حکومت کی کہی ہوئی بات پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے چاہے وہ موسم کی پیش گوئی سے متعلق ہو یا ویکسین کے محفوظ ہونے سے متعلق یا کسی اور بارے میں۔”

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس میں سائنس اور سماج سے متعلق امور کی ڈپٹی ڈائریکٹر ایلونڈرا نیلسن کا کہنا تھا کہ لوگوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ حکومت کی جانب سے جو بات بتائی جا رہی ہے وہ کوئی حکم نہیں ہے یا کسی بھی معاملے پر کوئی غیر شعوری رائے قائم نہیں ہے۔

نیلسن اور لب چینکو نے یہ بات پیر کو ٹاسک فورس کے پہلے اجلاس کے اعلان سے قبل ‘اے پی’ سے گفتگو میں کہی۔اس کمیٹی کی تشکیل 27 جنوری کو صدارتی یادداشت کی وجہ سے ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ شواہد پر مبنی پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکہ کی گزشتہ حکومت میں میڈیکل کیئر سے متعلق قانونی حقوق محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی جسے اب بائیڈن انتظامیہ تبدیل کر رہی ہے۔

صحت کی دیکھ بھال میں جنسی امتیاز کے خلاف بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ہم جنس پرست اور ٹرانس جینڈر افراد کو تحفظ فراہم کرنے کا منصوبہ ہے۔

محکمہ ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز کا کہنا ہے کہ ہیلتھ کیئر میں کسی قسم کا جنسی تعصب روا نہ رکھنے سے متعلق قومی قوانین کے تحت ہم جنس پرستوں اور ٹرانس جینڈر کو بھی تحفظ حاصل ہے۔

اے پی کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں جنس کی تعریف کے معنی تھے کہ وہ جنسی شناخت جو کسی کی پیدائش کے وقت اسے دی گئی ہو، اس طرح قانون کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کو تحفظ حاصل نہیں تھا۔

ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز کے وزیر ہاوئیر بسیرا کہتے ہیں کہ تعصب کے ڈر سے بعض افراد علاج نہیں کراتے، جس سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کو، بشمول ‘ایل جی بی ٹی کیو’ افراد کو بھی بغیر کسی خوف یا مداخلت کے علاج معالجے تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔

بائیڈن کے خطاب پر ری پبلکنز کا ردِ عمل؛ ‘صدر قوم کو متحد کرنے میں ناکام رہے’ہاوئیر بسیرا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پالیسی میں اس تبدیلی سے، ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز کی مطابقت گزشتہ سال، سپریم کورٹ کے اکثریت سے کیے گئے تاریخی فیصلے سے ہو جاتی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ملازمت میں جنسی تعصب کے خلاف فیڈرل قوانین میں ہم جنس پرستوں اور ٹرانس جینڈر افراد کو بھی تحفظ حاصل ہے۔

پیر کو اس اعلان سے ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز کا شہری حقوق سے متعلق دفتر اب جنسی رویوں اور صنفی شناخت کی بنیاد پر جنسی تعصب کے خلاف شکایات کی پھر سے چھان بین کر سکے گا۔

مزید برآں اسپتال، کلینک اور طبی امداد دینے والے دیگر اداروں کو ان قوانین کی خلاف ورزی پر سرکاری تعزیروں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں