پڑھ ہم غریب ہیں؟

ببرک کارمل جمالی
بلوچستان میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے کان میں آزان ٹوٹی ہوئی چارپائی پہ دی جاتی ہے اور کہاں جاتا ہے بیٹا بیٹا سن ہم بہت غریب ہیں۔اور جب بچہ بلوچستان کی سر زمین پہ دو سال کی عمر میں گھومنے لگتا ہے تو ماں پہلا سبق سوکھی روٹی کھلاتے ہوئی کہتی ہیں پڑھ بیٹا ہم بہت غریب ہیں۔چار سال کی عمر میں جب بچہ پہلی بار قرآن مجید پڑھنے پرانی مسجد جاتا ہے تو مولوی صاحب کہتا ہے بیٹا پڑھ ہم غریب دیس کے باسی ہیں۔جب بچہ بیمار ہوتا ہے مان بچے کو ہسپتال لے جاتی اور ڈسپینسر دوائی کی پرچی لکھ کے کہتا پڑھ بچہ ہم غریب قوم سے ہیں۔جب بچہ چھ سال کی عمر میں پرائمری سکول جاتا ہے تو استاد ڈنڈنی مار کے اس کو کہتا بیٹھ بیٹا ہم بہت غریب دنیا کے لوگ ہیں۔جب وہی بچہ بلوچستان کی سر زمیں پہ مڈل سکول میں جاتا ہے تو استاد ٹوٹی ہوئی بینچ پہ بیٹھا کے کہتا ہے پڑھ بیٹا ہم امیر صوبے کے غریب باسی ہیں۔جب بچہ ہائی سکول میں جاتا ہے تو استاد ٹوٹی ہوئی چھت کے نیچے بیٹھا کے کہتا ہے پڑھ ہم غریب اور سچے دل والے ہیں۔جب بچہ بڑا ہو کر کالج پہنچتا ہے تو لیکچر چار کمروں کے کالج میں بیٹھا کے آہستہ کہتا ہے پڑھ ہم غریب ہیں۔
جب بچہ بلوچستان کی واحد یونیورسٹی میں جاتا ہے تو اس کو خوبصورت خواب دیکھا کے پھر پروفیسر آہستہ کہتا ہے پڑھ ہم امیر صوبے کے غریب طالب علم ہیں۔بلوچستان کا بچہ روٹی کے گرد گھومتا ہے اور کہتا ہے سن ہم بہت غریب ہیں۔بلوچستان کا بچہ مٹی میں مل جاتا ہے اور آہستہ کہتا ہے سن ہم بہت غریب ہیں۔بلوچستان کا بچہ جب نوجوان بن جاتا ہے تو یہ ملک پیارا پاکستان اس سے مطالبہ کرتا ہے اے غریب صوبہ ہمیں کچھ اچھا دے دو تو ہمارا صوبہ اس ملک کو سوئی گیس دے دیتا ہے اور کہتے ہیں کہ اب لکڑیاں جلانا بند کردو اب گیس پہ کھانہ کھانہ پکاؤ۔لیکن کچھ سال گزرنے کے بعد یہ پیارا ملک کہتا ہے کچھ اور مجھے دے دو تو ہم اس ملک کو آٹھ ہزار پہلے وجود میں آنے والی نشانی مہر گڑھ دے دیتے ہیں۔لیکن چند سال گزرنے کے بعد پیارا پاکستان کہتا ہے کچھ اور مجھے دو تو ہم اس ملک کو ریکوڈیک اور سیندک دے دیتے ہیں اس میں سونا چاندی اور بہت سی معدنیات ہیں۔پھر چند سال مزید گزرنے کے بعد یہ پیارا پاکستان کہتا ہے توس ملک کو کچھ دو تو ہم اس ملک پاکستان کو گوادر دے دیتے ہیں۔ جس پہ دنیا کی نظر ہے۔وہی بچہ جب مر جاتا ہے تو قبر میں اتارتے ہوئے لوگ کہتے ہیں ہم غریب ہیں ہم غریب ہیں مگر ہم پسماندہ نہیں ہیں۔ ہم پہ غربت کی مہر لگائی گئی ہم غریب نہیں ہیں غریب وہ ذہن ہیں جو ہم کو غریب سمجھتے ہیں۔ ہم بڑے صوبے کے ساتھ بڑے دل والے غریب ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں