جون فیصلہ کن مہینہ ہے

اپوزیشن اپنی تمام تر امیدیں پی ٹی آئی کے ناراض جہانگیرترین گروپ سے وابستہ کئے بیٹھی ہے، اسے یقین ہے کہ ناراض گروپ کی تشکیل نے اس کا کام آسان اور منزل قریب کر دی ہے۔اس یقین میں کتنی صداقت ہے؟بجٹ کی منظوری کے وقت سامنے آ جائے گی۔اس وقت تک اس یقین کی حیثیت اپوزیشن کی معصومانہ خواہش یا ایک سیاسی مفروضہ سے زیادہ کچھ نہیں۔10جماعتی اتحادپی ڈی ایم بننے کے بعدسیاسی مبصرین کی اکثریت نے اس اقدام کو نہ صرف خوش آئند قرار دیا بلکہ اس کے نام میں بھی انہیں ڈیموکریٹک موومنٹ کی خوشبو محسوس ہوئی۔ لیکن پہلے جلسے کے بعد ہی پی ڈی ایم کی قیادت دو سوچوں میں بٹ گئی، کچھ دور چلنے کے بعداستعفوں کے مطالبے پر بکھر گئی۔مسلم لیگ نون کی اندرونی دھڑے بندی کئی برس پہلے ہی داناؤں نے محسوس کر لی تھی مگر ایک بات پرسب متفق تھے کہ ووٹ بینک نوازشریف کا ہے اس لئے بیانیہ انہی کا چلے گا۔ لیکن مینار پاکستان کے جلسے میں مریم نواز کو اپنا لیڈر تسلیم نہ کرنے والی لیگی قیادت کی عدم شمولیت نے اس وزنی دلیل کو بے وزن کردیا۔چنانچہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو بھی یقین ہوگیا کہ نوازشریف کا ”بیانیہ“ اب لیگی ورکرزکے لئے اپنی کشش کھو چکا ہے۔لاہوریوں کی نفسیات گوجرانوالہ جلسے میں نوازشریف کا بیانیہ ہضم نہ کر سکی۔ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس نعرے کی سمت، شدت اور متوقع رد عمل کو جانچنے میں کمی رہ گئی تھی۔بھاری بھرکم نعرہ تو فضاء میں اچھال دیا مگر نعرہ لگانے سے پہلے عوام کی نبض شمار نہیں کی گئی تھی۔ عوامی حمایت کے بغیر یہ نعرہ کئی حوالوں سے عاجلانہ اورقبل از وقت رہا، پھراس کا وہی ہوش ربانتیجہ برآمد ہواجس نے پی ڈی ایم کو اندر سے جھنجوڑ دیا۔یہ نعرہ اپنی ساخت اور مزاج کے اعتبار سے غیر منطقی تھا اور اب بھی ہے اس لئے کہ پی ڈی ایم کی لڑاکا قیادت پارلیمان سے باہرہوتے ہوئے پارلیمنٹ کو بلڈوز کرکے جی ایچ کیو فتح کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے سیاست دان ان سیاستدانوں کے لئے اپنی سیٹوں سے مستعفی ہوجائیں جو پارلیمنٹ کے چاروں طرف منڈلارہے ہیں مگر اندر داخل ہونے کا کوئی دروازہ نظر نہیں آتا۔ تاریخ میں جہاں کہیں جی ایچ کیوفتح کئے جانے کی مثالیں دیکھی گئی ہیں وہاں پارلیمنٹ کے ساتھ عوام کھڑے تھے یا اب بھی کھڑے ہیں۔ایک پاکستانی تجزیہ کار نے پاکستانی سیاستدانوں سے عام فہم سوال پوچھا ہے:۔۔۔۔ ”اگر لینن کی دس شوگر ملیں ہوتیں،ماؤ5ہزار ہیکٹرموروثی زمین کے مالک ہوتے،ہوچی منہ کسی بڑے قبیلے کے سردار ہوتے،کاسترو کے(اربوں ڈالرکے) آف شور اکاؤنٹس ہوتے،منڈیلا کی دہری شہریت ہوتی،خمینی وسیع تر قومی مفاد میں رضا شاہ پہلوی سے سمجھوتہ کرلیتے توپھر روس، چین، ویتنام،کیوبا، جنوبی افریقہ اور خود لینن، ماؤ، ہوچی منہ، کاسترو، مینڈیلا اورخمینی تاریخ کس پائیدان پر پائے جاتے؟“۔۔۔۔ پی ڈی ایم کی قیادت کومذکورہ سوال پر غور کرنا ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ پاکستانی عوام اپنی معاشی پسماندگی کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں؟ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں،گزشتہ چار دہائیوں میں جو خاندان اقتدار میں رہے ہیں ان کی مشکل یہ ہے کہ عدالتوں میں اپنے اقتدار کے دوران ہونے والی مالی بے ضابطگی کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جس حکومت کوگھر بھیجنا چاہتے ہیں اس میں اول تو خاندانی حکمرانی تا حال وجود نہیں رکھتی۔کوئی وزیر جیسے ہی کسی بدعنوانی میں ملوث پایاجاتاہے،استعفیٰ دیتا ہے اور عدالت میں پیش ہو جاتا ہے۔راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل تازہ ترین مثال ہے، وزیر اعظم کے قریبی دوست زلفی بخاری مستعفی ہو چکے ہیں۔جہانگیر ترین اپناپریشر گروپ بنانے کے باوجود من پسند مراعات حاصل نہیں کر سکے۔ایسی مثال ماضی میں نہیں نظر آتی جس میں کسی حاضر ڈیوٹی وزیر کو اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں کابینہ سے الگ ہونا پڑاتھا۔ میڈیا پر جو سیاسی صورت حال دکھائی دیتی ہے اس کی روشنی میں عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ بجٹ سیشن ملکی سیاست کا اہم موڑثابت ہوگا۔شہباز شریف کس کے کہنے پر اپنے بھائی نواز شریف کے پیر پکڑ کر کیا منوانا چاہتے ہیں؟پی ڈی ایم نے ان کا مفاہمت والا بیانیہ مسترد کر دیا ہے۔ابھی وہ مریم نواز کے ”پہلے مزاحمت اس کے بعد مفاہمت“ والی حکمت عملی کو بہتر سمجھتی ہے۔گویا شہباز شریف اور ان کے ہم خیال لیگی رہنماؤں کوایک بار کھلی جنگ لڑ کر اپنے بیانیہ کی قوت ثابت کرنی ہوگی۔ایک اور مینار پاکستان شو کی ضرورت ہے۔اگر جہانگیر ترین گروپ نے مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیاتو حکومت آسانی سے بجٹ منظور کرا لے گی،بصورت دیگر پارلیمنٹ ہر لمحے ایک نیا معجزہ دکھا سکتی ہے۔پنجاب میں چوہدری نثار علی خان کی حلف برداری صرف متوقع آرڈننس کا نتیجہ نہیں،اس کے دور رس اثرات سے انکارنہیں کیا جاسکتا۔ان کی صرف ایک مشکل ہے کہ شریف فیملی کے خلاف باغی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے۔جدید دور میں ”بغاوت“کو کوئی خوبصورت سا نام دینا مشکل نہیں۔ ایک معززچیف جسٹس کا”نظریہئ ضرورت“آئین پاکستان کو چند صفحات کی کتاب بنادیتا ہے۔ دوسرا چیف جسٹس ایک جنرل کو تین سال تک آئین میں ترامیم کا اختیار دیتا ہے،مذکورہ ”چیف جسٹس“ کی بحالی کے لئے ملک گیرعدلیہ بچاؤ تحریک چلا ئی جاتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کے لئے بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ویسے بھی تین سال حلف نہ اٹھا کر وہ سیاسی کفار ہ پہلے ہی ادا کر چکے ہیں۔ جون کا مہینہ ملکی سیاست کے حوالے سے یادگار ثابت ہوگا۔بجٹ منظور ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ سب جانتے ہیں خواہشات دل میں جنم لیتی ہیں اور دل ہی خاموشی سے دفن ہو جاتی ہیں۔سیاسی تبدیلیاں صرف کسی فرد یا چندافراد کی خواہشات کی تسکین کے لئے رونما نہیں ہوتیں۔تبدیلی مناسب سماجی شرائط کے بغیر دنیا کے کسی خطے میں رونما نہیں ہوتی۔خلق خدا کو نقارہئ خدا کہا جاتا ہے۔خلق خدا کی قوت برداشت نے ابھی جواب نہیں دیا،اپوزیشن کچھ بھی کہے لنگر خانے اور پناہ گاہیں بھوکے عوام اور بے گھر عوام کی نظر میں کچھ اور مفہوم رکھتی ہیں۔”اپنا گھر“جیساتصوراتی استعارہ حقیقت بننے کی آس دلاتا ہے۔ یاد رہے اقتدار میں آنے کے لئے ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کا نعرہ پرکشش ہوتا ہے مگر اقتدار کودوام دینے کے لئے اس نعرے کو عملی شکل دیناضروری ہو جاتا ہے۔اپوزیشن نے اس نعرے کو فراموش کر دیاتھاکچھ دیر انتظار کرنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں