بلوچستان کا سفر اور منزل

تحریر یاسر بلوچ

سائنسی، فنی علمی تعلیم وقت و حالات کے ساتھ جدید ہوتے جارہے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک جدید علوم سے آراستہ ہو رہا ہے اور ترقی کے طرف سفر کر رہا ہے۔ امیر بلوچستان کے غریب عوام جدید علم تو کیا عام تعلیم حاصل کرنے سے بھی کتراتی نظر آ رہی ہے۔ شاہد علم حاصل کرنے کو یہاں کے لوگ اب خطرے کا باعث سمجھتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہر فرد کی خواہش ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور تعلیم یافتہ ہونے یا ان کے قریب رہنے کی خواہش مند تھی۔ مگر اب حالت کچھ اور منظر پیش کر رہے ہیں لوگ تعلیم حاصل کرنے اور شعوری علم کو خطرہ سمجھ کررہے ہیں کیونکہ بلوچستان کے حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے ہیں۔
بلوچستان میں غربت کی شرح کافی نیچے ہے ہر دوسرا فرد دو وقت کی روٹی کیلئے محتاج ہے اسی لیے تعلیم اور علم حاصل کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن بلوچ کا غریب عوام اپنا پیت کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے شہروں میں بھیجتے ہیں۔
مگر اس کے باوجود بھی شعور یافتہ طبقہ اس وقت سب سے زیادہ خطرے میں ہے اور بلوچستان کے حالات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کچھ عرصا قبل یہاں کے مشہور تعلیمی اداروں میں ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا تھا۔ یہاں کہ مستقبل کے مسیحا یعنی ایم-بی-بی-ایس کے طلبا کو کبھی فیس کی مد میں تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں تو کبھی رات کے اندھیرے میں ہاسٹل سے بیدخل کردیتے ہیں۔ ان حالات کے باوجود بھی کئی مشکلات سے نکل کر جب کوئی ڈاکٹر بنتا ہے تو اس کے لیے زندگی کے مزید سخت دن انتظار میں ہوتے ہیں اگر کوئی ڈاکٹر مسیحا کی بجائے قسائی بنتا ہے جعلی دوا چیک اپ کے بدلے بھاری رقم فیس کی مد میں اور مہنگے ٹیسٹ کے نام پر بڑی رقم لیکر غریب عوام پر ظلم کرتا ہے تو اسے عزت بھی دی جاتی ہے پروٹوکول کے علاوہ شہرت یافتہ بھی بن جاتا ہے مگر جب کوئی ڈاکٹر حقیقی مسیحا بنتا ہے اپنے لوگوں کی خدمت کرتا ہے تو یہاں اسے ہر طرف سے نشانہ بنایا جاتا ہے نہ صرف اسے کوئی سہولت دے جاتی ہے نہ ہی کوئی حفاظتی سامان اور نہ ہی کوئی سیکورٹی جب یہی لوگ مجبوراً اپنے حق مانگنے لگے تو ان پر ڈھنڈے برسا کر انہیں زندانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
یہاں جب کوئی انسان انصاف کیلئے لڑنے کے خاطر وکیل بنتا ہے لوگوں کو انصاف دلانے کیلئے وکالت کرتا ہے تو 8 اگست جیسا سانحہ پیش آتے ہیں جہاں پر انصاف کی خاطر لڑنے والوں کو بلوچستان سے چین لیا جاتا ہے یہاں کے عوام پیٹ کاٹ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرہی لیتا ہے تو نوکری کیلئے اسے در در کے ٹھوکریں کھانے پڑھتے ہیں اسے تعلیم حاصل کرنے کی پوری سزا بیروزگاری کی شکل میں پوری طرح ملتی ہے اگر کوئی صحافی بن کر سچ کیلئے لڑھتا ہے تو اسے سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے کوئی لکھاری حقیقت سامنے لانے کیلئے لکھتا ہے تو اسے مجنوں کہا جاتا ہے جب کوئی اپنی قوم کی حقیقی رہنمائی کرتا ہے قوم کے خاطر جدوجہد کرتا ہے تو اسے غدار اور ایجنٹ کا لقب دیا جاتا ہے اگر کوئی تاریخ دان جاگیردارانہ نظام کے ظلم کو تاریخ میں لکھے تو اس کے قلم کو تھوڑ کر کھڑی سزا دی جاتی ہے اگر کوئی شاعر اپنے وطن کے درد کو بیان کریں تو اس کے آواز کو ہی دبا دیا جاتا ہے۔ شعور یافتہ بننے اور علم حاصل کرنے سے ڈرنے کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے ہزاروں لاپتہ افراد جن کی اکثریت کا تعلق ڈاکٹر انجینئر رائٹرز صحافت جیسے شعوری اور علمی شعبے سے ہے اگر کوئی ان واقعات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں تو اسے بھی لاپتہ ہونے میں دیر نہیں لگتی اسی لیے ڈر اور خوف کا ماحول بنا ہے جس سے سفر بلوچستان کانٹوں بھری اور مشکل ہے بدقسمتی سے منزل اس سے بھی خطرناک دکھائی دے رہی ہے اسی لیے پچھلے ستر سالوں سے بلوچستان تیزی سے پسماندگی کی طرف سفر کر رہا ہے۔ نجانے کب حکمرانوں کو بلوچستان پر رحم آئے! کب بلوچستان کی تقدیر بدلے اور کب یہ خوف کا ماحول ختم ہوگا…!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں