ملک نااہل ترین سیاسی قیادت کی لپیٹ میں

منان صمد بلوچ
آئیے! کچھ لمحوں کیلئے ماضی میں جھانک کر تازہ زخموں پر نمک چھڑک دیتے ہیں- ہم بچپن سے سُنتے آرہے ہیں کہ آگے بڑھنے کیلئے ہمیں ماضی کو بھولنا چاہیے اور حالیہ دور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنی چاہیے- اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن میں ماضی کے بغیر اس کالم کے لفظوں کو آگے دھکیلنے سے مکمل قاصر ہوں اور مجھے ماضی کے اوراق کو پلٹنا ہوگا تاکہ میں اپنے خیالات کو سمیٹ کر ایک کالم کی شکل دے سکوں۔
وہ بھی کیا دن تھے جو ہمارا ہینڈسم وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں تھے، میڈیا کا لاڈلہ تھا، عوام نے تعریفوں کے پل باندھے ہوئے تھے۔ نوجوانوں نے کپتان سے بہت سے توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے، بچوں سے لیکر بوڑھے خان صاحب کی وزیراعظم بننے کے خواہش کر رہے تھے۔بلاناغہ اس کا چرچا رہتا تھا، سونے اور اُٹھنے کے وقت ملک کی بھولی سی عوام اُن کیلئے نیک دعائیں کرتے تھے، آخر کار جس دن کا انتظار تھا وہ دن بھی آپہنچا۔
18 اگست 2018 میں ہمارے ہینڈسم کے نام میں ایک ہینڈسم لفظ کا اضافہ ہوا جس کے انتظار میں وہ بہت بیچین تھے- لیکن عمران خان "وزیراعظم” جیسی ہینڈسم لفظ کے مستحق ہیں کیونکہ یہ اُن کی 22 سالہ غیرمتزلزل سیاسی جہدوجہد اور انتھک کاوشوں کا ثمر ہے،وزیراعظم اپنے تقریبِ حلف برداری میں مسرور دکھائی دے رہے تھے اور عوام کی آرزو بھی پایہ تکمیل تک پہنچ گئی جس کی وجہ سے عوام رج رج شادیانہ بجارہے تھے۔
لیکن عوام کو کیا پتا تھا ایک دن ملک میں کورونا جیسی جان لیوا موذی مرض اپنے پنجے گاڑ دے گا جس کے ذریعے حکومت کی حیثیت پلٹ کر سامنے آئے گی۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے والے عوام کو مفت ماسک نہیں دے پائے گا، پچاس لاکھ گھریں بنانے والا سہولتوں سے لیس قرنطینہ نہیں بنا پائے گا، ملک میں چالیس انڈسٹریز بنانے کی بات کرنے والا ایک اچھا خاصا فیکٹری نہیں بنا پائے گا جس میں ماسک، گلوز، ہینڈ سینیٹائیزر، وینٹیلیٹرز اور دیگر حفاظتی آلات بنایا جاسکے، غربت ختم کرنے کی دعوٰی کرنے والا مشکل گھڑی میں غریبوں راشن نہیں دے سکے گا، اسپتالوں میں انقلابی اصلاحات لانے کی بات کرنے والا ڈاکٹروں کو مخدوش صورتحال میں سیفٹی کٹس نہیں دے سکے گا-
عوام کو یہ بھی پتا نہیں تھا کہ حکومت بنتے ہی آئی ایم ایف سے بھیک مانگنا پڑے گا، ڈالروں کی بارش کے بجائے ڈالروں کی اُڑان ہوگی، روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ آئیگی، اسٹاک مارکیٹ میں بدترین مندی ہوگی، چھوٹے انڈسٹریاں بند ہونے لگیں گے۔ مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔ ٹیکس کے پہاڑ توڈ دیے جائیں گے، غریب عوام کی کمر توڈ دی جائے گی۔ نیندیں حرام کردی جائیں گی۔ غریب خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، عوام کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا جائے گا، نوجوان نسل کو مایوس کی جائے گی اور کپتان رحمت کے بجائے زحمت کی علامت بن جائے گا۔
اب چلے آتے ہیں اُن لوگوں کی آراء کی جانب جو فخر سے کہتے ہیں کہ عمران خان ایک ایماندار، دیانتدار اور سچا لیڈر ہے۔میں اس نقطہ نظر سے بھی بالکل اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارا ہینڈسم ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ نااہل بھی ہے۔ ملک کو اچھی سمت دے نہیں پارہا ہے اور ادارے کرپٹ ہوتے جارہے ہیں۔مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ ملک تو بہت بڑی بات ہے وہ تو اپنی پارٹی کو سنبھال نہیں سکتا، کابینہ کے وزراء کے مابین سرزنش اور سرکوبی ہوتی رہتی ہے، کبھی عثمان بزدار سے خفا دکھائی دیتے ہیں اور کبھی خیبر پختونخوا میں وزیراعلٰی محمود خان کے خلاف بغاوت کی خبریں سر اُٹھانے لگتے ہیں، سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کے اتحادی بھی اکثر نالاں رہتے ہیں اور میڈیا اور پارلیمنٹ کے سامنے شکایات کی بوچھاڑ لگا کر اتحادی منقطع کرنے کی دھمکی و دھونس دیتے رہتے ہیں۔ کیا اس ایمانداری کا کوئی فائدہ ہے جس میں نااہلی کی بُو آرہی ہے؟ بندہ دیانتدار لیکن نالائق، ہنسوں یا چیخوں؟
پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اُمیدوں اور توقعات کی فہرست کو بہت بڑھا چڑھاکر پیش کی جو پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں یہ سب کچھ ممکن ہی نہیں جس سے عوام کو مایوسی و دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ملا، حکومت اگر بیوقوفانہ دعوے کرنے کے بجائے ملک کی سارے بیالیس ریگولیٹری باڈیز یعنی پیمرا، نیپرا، پی آئی اے، ایف بی آر، پاسکو اور دیگر اتھاریٹیز میں اصلاحات لانے پر خصوصی توجہ دیتی تو شاید آج حالات تھوڑا بہتر ہوتے۔
لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان اور اُن کی ٹیم نے 100 روزہ ایجنڈے کے پلان میں اتنے وعدے عوام سے اسلئے کیے تھے کہ وہ ملکی خزانے کی خالی ہونے پر ناآشنا و ناواقف تھے۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو اپوزیشن میں عمران خان اپنے تقاریر میں پچھلی حکومتوں کو بار بار چور اور کرپٹ کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا کرپشن کرنا، قومی خزانے کو لوٹنے کے مترادف نہیں ہے؟ یہ سب حکومتی نااہلی، نالائقی اور ناتجربہ کاری کی داستان ہے، حالیہ حکومتی ٹیم کے پاس نہ کوئی اہلیت ہے نہ کوئی صلاحیت اور قیادت کے پاس نہ کوئی وژن ہے نہ کوئی تجربہ جس کی وجہ سے ملک تبائی کی دہانے میں آن پہنچی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی لیڈر کی قائدانہ صلاحیتیں مشکل وقت میں نظر آتے ہیں جس میں وہ ٹھوس فیصلے لیتے ہیں، لیکن ایک طرف سے ہمارا وزیراعظم ابھی تک کنفیوز ہے کہ ملک میں لاک ڈاون ہونی چاہیے یا نہیں، ایک ہفتے سے لاک ڈاون اور کرفیو کو لے کر کنفیوز ہے اور عوام کو بھی کنفیوز کررہا ہے اور دوسری جانب وزیراعظم اپوزیشن کو ساتھ لیکر کورونا سے لڑنے کیلئے بلکل تیار نظر نہیں آرہا اور سیاسی اختلاف کی دائرے سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ وزیراعظم اس نازک صورتحال میں بھی چور اور کرپٹ کے طعنے دیتا ہے۔ پارلیمانی رہنماؤں کی کانفرنس میں اپنی تقریر کر کے چلے جاتے ہیں۔ کورونا کے خلاف ایک جامع سیاسی لائحہ عمل اپوزیشن لیڈروں کے سامنے نہیں لاتے۔ اس غیرمستحکم حالت میں عمران خان کو سیاسی انتقام، ہٹ دھرمی اور غیر لچک پن زیب نہیں دیتے جو کسی بھی لیڈر کی اصولوں کے خلاف ہیں۔
ملک تاریخی نااہل ترین و بدترین لیڈرشپ کا سامنا کررہا ہے- اچھی سیاسی قیادت کی فقدان کی وجہ سے نت نئے چیلنجز درپیش آ رہےہیں۔ پچھلے 73 سالوں سے عوام لیڈر کی سُوانگ میں ایک مسیحا کی انتظار میں ہے۔ ہینڈسم عوام کیلئے فرشتے کی روپ میں آیا لیکن بعد میں آسیب نکلا جس کی باتوں پر اب کوئی بھروسہ نہیں کرتا اور لوگ اُمیدوں کے دامن کب کے چھوڑ چُکے ہیں۔
ایک جانب سے سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے قومی ایکشن پلان جمع شدہ رپورٹ کے مطابق 25 اپریل تک کیسز کی تعداد 50 ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے اور ابھی تک حکومتی سطح پر مطمئن کن اقدامات نہیں اُٹھائے گئے ہیں اور دوسری جانب سے معاشی ماہرین عندیہ دے رہے ہیں کہ اس سال میں 12 لاکھ لوگ اپنے نوکری کھو بیٹھیں گے، 25 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آئیں گے اور ملکی جی ڈی پی 1.9 سے 1.2 تک آ پہنچے گی جو بہت ہی پریشان کن اعدادوشمارات ہیں۔
آخر میں کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں جو کسی کے ذہن میں اُبھر سکتے ہیں، کیا ملک میں آمرانہ جمہوریت نافذ ہے؟ کیا وزیراعظم بے اختیار ہے؟ کیا ملک کسی اور کی کنایوں پہ چل رہی ہے؟ اور ہاں نیب کو سیاسی ہتھیار بناکر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا، عدالتی فیصلوں پر دباؤ ڈالنا، میڈیا پر قدغن لگانا، مخالف آوازوں کو دبانا، آزادیِ رائے کو کچلنا، غریبوں کی کوئی پرواہ نہ کرنا، اپوزیشن لیڈروں کو دیوار سے لگانا، صدارتی آرڈینس کے ذریعے ترامیم لانا، پارلیمنٹ کی بیحرمتی کرنا اور کورونا کے خلاف جمہوری نہج میں متفقہ لائحہ عمل نہ لانا اور مشترکہ سیاسی حکمتِ عملی نہ اپنانا، یہ سب کس چیز کی غمازی کررہے ہیں اور یہ جمہوریت کی بہروپ میں کیوں ہورہے ہیں؟ اگر آپ ملک میں مارشل لاء نافذ کرنا چاہتے ہیں تو دیر کس بات کی، بسم اللہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں