ایوان میں ہنگامہ آرائی نہ کرنے پر اتفاق

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں جس قسم کی ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی ایسا ماضی میں نہیں ہوا۔ احتجاج اپوزیشن کرتی تھی اور حکومت صبروتحمل سے نعرے بازی اور شورشرابہ برداشت کرتی تھی۔ اس مرتبہ حکومت کی جانب سے بھی ترکی بہ ترکی جواب دینے کی حکمت عملی اپنائی گئی، دونوں جانب سے بجٹ کتابیں ایک دوسرے پر اچھالی گئیں، بعض اراکین زخمی ہوئے جن میں خاتون ایم این اے بھی شامل ہیں۔اپوزیشن کی جانب سے دلیل دی گئی کہ دنیا بھر میں اپوزیشن کواحتجاج کا استحقاق حاصل ہے جبکہ حکومت نے کہا بہت ہوگیا، آئندہ یکطرفہ ٹریفک نہیں چلنے دیں گے،جیسا اپوزیشن کرے گی اسے ویسا ہی جواب دیا جائے گا۔ اگر ایوان میں وزیر اعظم کو تقریر نہیں کرنے دی جائے گی تو اپوزیشن لیڈر بھی تقریر نہیں کرسکے گا۔اور پھر ایسا ہی ہوا۔اپوزیشن لیڈراپنی تقریر ایک معاہدے کے بعد مکمل کر سکے۔انہوں نے ایوان کے اندر اورایوان سے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران یقین دلایا ہے کہ آئندہ وزیر اعظم کی تقریر خاموشی سے سنیں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسے مشکوک انداز میں دیکھا اور کہا ہے:”دیکھنا ہوگا اپوزیشن کیسا رویہ اختیار کرے گی، جب حکومت کی جانب سے تقریر ہوگی کیااسے سنا جائے گا؟ شہبازشریف نے پیشکش تو اچھی کی ہے لیکن انہیں فیصلہ سازی کا اختیار نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ عملی طور پر کیا کر سکتے ہیں؟“ لیکن مبصرین سمجھتے ہیں کہ تین روزہ ہنگامہ آرائی کے بعد فریقین نے آپس میں مشروط معاہدہ کر لیا ہے۔ایک ہی روز بڑی تعداد میں منظور کئے گئے بلزپر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مجوزہ کمیٹی غور کرے گی۔اچھا ہوا حکومت کی درخواست پر اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکرقومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لی ہے۔ورنہ تحریک کی قرارداد پر ایک ایسے ایم این اے کے بھی دستخط موجود تھے جن کا نہ صرف انتقال ہوچکا ہے بلکہ ان کی خالی نشست پرانتخابات بھی کرا دیئے گئے ہیں اور حکومت نے اس غلطی کی نشاندہی بھی کر دی تھی۔قرار داد کی حمایت کے لئے 172ووٹ درکار تھے،اپوزیشن کے پاس162موجود ہیں۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں تحریک کی کامیابی آسان کام نہیں نظر آتی تھی۔حکومت نے تحریک واپس لینے کی درخواست کرکے اپوزیشن کے لئے راستہ فراہم کیا۔یہ درست ہے کہ حکومت نے جوابی گالم گلوچ اور کتابیں پھینک کر اپنی نیکنامی داؤ پر لگائی، ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا، مگر اپوزیشن کو یہ بات سمجھادی ہے کہ حکومتی بینچوں پر بیٹھی خواتین اراکین کو گالیوں سے نوازنے کا استحقاق اسے حاصل نہیں۔ایک کڑوا اور تکلیف دہ سچ ہے کہ”جمہوریت“ ابھی سیکھنے کا عمل مکمل نہیں کر سکی، زیرِ تعلیم ہے۔ 1787میں امریکی دستور منظور کیا گیا تھا مگر نومبر2020میں ہارنے والے امیدوار(ڈونلڈ ٹرمپ)عملی طور پر کسی،امریکی ادارے سے ”ووٹ کو عزت دو“ کا مطالبہ کر رہے تھے۔امریکی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور اراکین پارلیمنٹ نے بھاگ کر اپنی جان بچائی تھی۔سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں نے یہ مناظر ٹی وی چینلز پر دیکھے اور سب کے حافظے میں محفوظ ہیں۔پاکستان میں جمہوریت نے جن نامساعد حالات میں اپنا سفر طے کیا ان کے پیش نظر اسے گریس مارکس(رعایتی نمبر)دینے کی گنجائش سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن اور حکومت کی زبان پر ایک دوسرے کے لئے خیر سگالی کے جذبات کااظہاراچھے دنوں کی آمد کا اشارہ ہے۔اس تصادم کے نتیجے میں دونوں فریق اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صلح ہی بقاء دے سکتی ہے۔ دراصل سیاست میں سیکھنے کا عمل غیر ارادی طور پر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ نون لیگ کے سینئر رہنمانے اپنی گالی کو پنجاب کلچر کی پیداوار قرار دے کر کوئی انوکھی بات نہیں کی،ہر شخص اسی رنگ میں رنگا دکھائی دیتا ہے جو اس نے آنکھ کھولتے ہی دیکھاہو،اس میں کوئی استثناء نہیں۔روم میں رہنے والے وہی کچھ کرتے ہیں جو رومیوں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔شاید میڈیا کی جانب سے کی جانے والی شدید تنقیدکے بعد وہ اپنی اصلاح کر لیں۔اس معاہدے کے فوراً بعد ایوان کاماحول یکسرتبدیل نظر آیا۔لگتا تھاکہ ہلڑبازی کرنے والے کوئی اور لوگ تھے،ایوان سے جا چکے ہیں۔خوشگوار ماحول میں قائد حزب اختلاف نے اپنی تقریر مکمل کر لی،حکومت کو سمجھا یاکہ جب تک عوام کی جیب خالی ہے اس وقت تک ہر بجٹ جعلی ہے۔ اصلی بجٹ وہ ہوگا جس کی منظوری کے نتیجے میں عوام کی جیبیں خالی نہیں رہیں گی۔ شہباز شریف نے مہذب انداز میں حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اپنی گورننس بہتر بناؤ، لوڈ شیڈنگ کا اب کوئی جواز نہیں۔ شاندار فصلیں پیداہوئی ہیں تو عوام کو سستا آٹا اور سستی چینی فراہم کی جائے۔ اگرچہ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ اگر اپوزیشن سیسہ پلائی دیوار بن جائے تو بجٹ منظور نہیں ہو سکتا۔حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اپوزیشن یہ شرط پوری نہیں کر سکتی چنانچہ حکومت باآسانی بجٹ منظور کر لے گی۔ حکومتی ارکان نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر کے دوران خاموش رہ کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ معاہدے پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ انہیں امید ہے اپوزیشن بھی معاہدے کی پاسداری کرے گی۔اپوزیشن کو حکومت گھربھیجنے کے حوالے سے زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ آئی ایم ایف بجٹ میں کئے گئے دعووں کو باریک بینی سے دیکھ رہا ہے،اغلب امکان ہے تین ماہ بعد ہی حکومت کو جواب دہی کے لئے طلب کر لے گا۔اتنی کم مدت میں وزارت خزانہ کو نتائج دکھانے ہوں گے،کوشش کرے گی کہ آئی ایم ایف کے سامنے اپنے دلائل کو عملی شکل میں پیش کرے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ شواہد کے ساتھ ٹیکس نیٹ بڑھائے، مشیر وزیر اعظم برائے خزانہ میڈیا کے روبرو ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکیں کہ ستمبر تک فائلر بننے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔دوسرے مرحلے میں ایسے فائلرز کو شواہد دکھائے جائیں جو ٹیکس کی ادائیگی درست طور پر نہیں کر رہے۔ایک جانب وہ کہہ رہے ہیں کہ ایف بی آر ٹیکس دہندگان کو ہراساں نہیں کرے گا اور اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے:”ایف بی آر کو ضروری اختیارات دیئے جائیں گے جو لوگوں کو ٹیکس چوری سے باز رکھنے میں مددگار ہوں۔ٹیکس نادہندگان کی گرفتاری وزیر خزانہ کے دستخطوں سے ہوگی“۔۔۔۔۔اپوزیشن چند ماہ صبروتحمل سے کام لے، حکومتی کارکردگی سامنے آ جائے گی۔ہلڑ بازی کر کے دیکھ لیا مطلوبہ نتائج نہیں ملے۔اپوزیشن اپنے اس تجزیئے پر قائم رہے کہ حکومت اپنی نااہلی کے بوجھ سے خود ہی گر جائے گی۔اور اگرحکومت آئی ایم ایف کومطمئن کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر اسے قبل از وقت گھر بھیجنے کی ضد نہ کی جا ئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں