کوئٹہ، اسمبلی میں ہنگامہ آرائی پر اپوزیشن معافی مانگے، وزیراعلیٰ بلوچستان
کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے صوبائی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی پر اپوزیشن رہنماؤں سے معذرت کرنے کا مطالبہ کردیا۔
بلوچستان اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جام کمال نے کہا کہ اگر اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو کل کوئی بھی گیٹ کود کر اندر آجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کم ازکم ہم اپنی جماعت پر یہ الزام نہیں چاہتے کہ یہ ہماری کمزوری تھی، اسمبلی کی عزت نہیں ہوگی تو ہماری بھی نہیں ہوگی، تھانے میں پریس کانفرنس کرنے کی وہ اہمیت نہیں جو اس ایوان میں ہے۔
جام کمال کا کہنا تھا کہ جلسے جلوسوں سے صوبہ ترقی نہیں کرتا، اپوزیشن ترقیاتی کام نہ ہونے پر خوش ہے لیکن اپوزیشن حکومت کو بلیک میل نہ کرے، اپوزیشن ایوان میں آئے ہم سے بات کرے اور لازمی نہیں کہ ہم ساری باتیں مانیں، اپوزیشن کو ووٹ لوگوں نے تھانوں میں رہنے کیلئے نہیں دیا اس لیے اپوزیشن اراکین آئیں اور بات کریں، یہاں ساری باتیں ریکارڈ پر ہوں گی۔
خیال رہے کہ 18 جون کو بجٹ اجلاس سے قبل بلوچستان اسمبلی میں ہنگامہ آرائی پر اپوزیشن کے 17 اراکین کےخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ اپوزیشن کو بجٹ سے چار دن پہلے معلوم ہوگیا کہ بجٹ میں کچھ نہیں ہے اور اسے رد کردیا گیا عوام نے اپوزیشن ارکان کو تھانوں میں بیٹھنے، پریس کانفرنس، سوشل میڈیا پر تقاریرکرنے نہیں ایوان میں مسائل اٹھانے کے لئے بھیجا تھا، اپوزیشن ایسے توقعا ت رکھتی ہے جیسے حکومتی اتحادی ہو، بجٹ اجلاس ہنگامہ آرائی کے واقعہ کو سنجیدیگی سے دیکھنے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ضرورت ہے،حکومت نے گزشتہ تین سالوں کے دوران 25ہزار افراد کو ملازمتیں دیں، 10ہزار سمریاں پیش ہوئیں، 34کابینہ اجلاس ہوئے جن میں 618نکات نمٹائے گئے، 55نئے بلز اور ترامیم منظور ہوئیں،29اضلاع کے 65دورے کئے گئے، 550سرکاری جبکہ 340سیاسی اجلاس و ملاقاتیں ہوئیں، یہ بات انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے بجٹ سیشن کے اختتام پر ایوان میں تین سالہ گارکردگی اور آئندہ بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہی،ہفتہ کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں وزیر خزانہ نے رواں مالی سال کے ضمنی اور اگلے مالی سال2021-22ء کے منظور شدہ اخراجات کے گوشوارے ایوان کی میز پر رکھے۔ ایوان میں وزیراعلیٰ جام کمال خان نے حکومت کی گزشتہ تین سالہ کارکردگی اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں رکھے گئے منصوبوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگست میں حکومت کو تین سال مکمل ہوجائیں گے عوام جب ہم سے کارکردگی کی بات کرتے ہیں تو حکومت کی حیثیت سے یہ بتانا ہمارا فرض ہے کہ حکومت نے عوام کے لئے گزشتہ تین سالوں میں کیا کچھ کیا ہے۔ اور اس کارکردگی کی بناء پر ہماری عوام میں پذیرائی ہوگی اگر اپوزیشن بھی ایوان میں موجود ہوتی تو انہیں بھی یہ کارکردگی بتا سکتے تھے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایوان پر حملہ ہوا یہ وہ ایوان ہے جہاں صوبے کے ذرے ذرے اور پیسے پیسے کا فیصلہ ہوتا ہے اسی ایوان کے پاس یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ حکومت کو کوئی کام کرنے کی اجازت دے یا نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے شریعت کے بعد یہ ایوان ہے جو عوام کے لئے قوانین بناتا ہے اور ان پر عملدرآمد کرواتا ہے اگر اس پر کوئی آنچ آئے تو اسے کسی بھی صورت غیر سنجیدہ طور پر نہیں لینا چاہئے ماضی کی ایک حکومت کے ورکروں کی جانب سے سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تھا جو آج بھی یاد کیا جاتا ہے یقینا بلوچستان اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ بھی یاد رکھا جائے گا اور اگر اس حملے میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات اور کارروائی نہیں کی جاتی اور اس معاملے کو ایک منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا تو آنے والے لوگ ہماری مثال دیں گے کہ یہاں پر ایسے لوگ بھی آئے تھے کہ جنہوں نے اس عمل کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور پھر بعد میں توڑ پھوڑ کی روایت بن جائے گی اس حوالے سے ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران اور رہنماء عوام سے معذرت کریں کہ ان کے لوگوں کی وجہ سے اس ایوان کو نقصان پہنچا اور اس کا تقدس پامال ہوا اپوزیشن اس کے بعد ایوانمیں آئے اور سوالات اٹھائے تنقید کرے کارکردگی بتائے حکومت جواب دینے کی پابند ہے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپوزیشن لیڈران جو پارلیمان کی بالادستی، ووٹ اور عوامی نمائندوں کی عزت کا پرچار کرتے ہیں وہ اس ایوان کی عزت بھی رکھیں گے اور اگر ایوان کی عزت نہیں ہوگی تو ہماری عزت بھی نہیں ہوگی وزیراعلیٰ نے کہا کہ اپوزیشن روز اول سے کہہ رہی ہے کہ حکومت کام نہیں کررہی جبکہ صوبائی حکومت کے عوامی مسائل حل کرنے کے لئے اقدامات اپوزیشن کے ذہن میں خدشات پیدا کررہے ہیں کیونکہ حکومت کی کامیابی سے اپوزیشن کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے دین، مذہب، قوم،ا فغانستان یا کسی دوسرے ملک کے نام پر سیاست کرتے رہیں تو اس سے بلوچستان کی ترقی ممکن نہیں ہے بلوچستان کی ترقی، ترقیافتہ سیاسی سوچ سے ممکن ہے آج بلوچستان کا ہر شہری روزگار، صحت، تعلیم، سڑکیں اور بنیادی وسائل مانگتا ہے حکومت کام کرنے لگتی ہے تو اپوزیشن نے پی ایس ڈی پی کے خلاف کیس درج کرادیا اپوزیشن خوش ہے کہ ترقیاتی کام نہ ہوں تاکہ ہم کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ الیکشن میں نہ جاسکیں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن 2023ء میں اپنی کارکردگی نہیں بلکہ صرف تقاریر کرے گی جبکہ حکومت پر کارکردگی اور عملی بنیادپر انتخابات میں جانے کا دباؤ ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اپوزیشن اس طرح سے بات کرتی ہے کہ شاید وہ ہماری اتحادی ہے اور وہ ہمیں مشغول رکھ کر وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں اگر پالیسی سازی بجٹ سازی، ترقیاتی منصوبے بھی اپوزیشن نے کرنے ہین تو پھر حکومت کاکیا کام ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ اپوزیشن یہ کام کرسکے انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے تین سال میں وہ کام کردکھائے ہیں کہ جو ماضی کی حکومتیں کئی برسوں میں نہیں کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ لورالائی اور رخشان ڈویژن کا قیام سی پیک منصوبوں، سی پیک کے تحت مغربی روٹ کو عملی شکل دینا، وفاقی حکومت کو فنڈز کے لئے قائل کرنا، مکران ڈویژن میں ترقیاتی کام، ژوب، ہرنائی، دکی، ڈیرہ بگٹی، وندر ڈیم، نولنگ ڈیم منصوبوں پر کام کا عملی آغاز، کوئٹہ چمن کراچی شاہراہ کو دو رویہ کرنا، ڈیرہ مراد جمالی میں شاہراہ کی تعمیر، سبی کوئٹہ روڈ یہ سب موجودہ حکومت نے شروع کروائے ہیں گوادر سی پیک کا مجموعہ ہے مگر جنہوں نے پانچ سال حکومت کی وہ بتائیں کہ انہوں نے گوادر کے لئے کیا کیا۔ ہم نے صرف تین سال میں پینے کا پانی، ایکسپریس وے، ایئر روڈ کی تعمیر، ہوشاب آواران تفتان کی سڑکوں کے منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اتحادی اپنے اضلاع میں اور ڈویژن کی سطح پر عوامی نمائندگی کا حق ادا کررہے ہیں وفاقی بجٹ میں منصوبے ایسے ہی نہیں ڈھل جاتے ان کے لئے بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے حکومت نے محنت کرکے یہ منصوبے وفاق کے بجٹ میں شامل کرائے۔ موجودہ حکومت منفرد کام کررہی ہے اور زیادہ سے زیادہ فنڈز وفاق سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ہم میڈیا پر داد سمیٹنے نہیں بلکہ عوام کی دی جانے والی ذمہ داری کو پورا کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اگر حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے تویہ ممکن نہیں ہم اپوزیشن کی بات سنتے ہیں لیکن اپوزیشن عوامی نمائندگی کا حق اد ا نہیں کررہی عوام نے اپوزیشن اراکین کو تھانے میں بیٹھنے، سوشل میڈیا یا تقریبات میں تقاریر کرنے کے لئے نہیں بھیجا اور نہ ہی پریس کانفرنسز کرنے کے لئے بھیجا ہے عوام نے انہیں ووٹ اس لئے دیا کہ وہ اسمبلی میں جائیں اور ان کی نمائندگی کریں ان کے مسائل پر گفتگو کریں جو کہ اپوزیشن نہیں کررہی کل اپوزیشن کے ووٹر ان سے ضرور پوچھیں گے کہ ہم نے جس کام کے لئے آپ کو منتخب کیا تھا آپ نے ایوان میں جا کر وہ کام کیوں نہیں کیا وزیراعلیٰ نے کہا کہ شیخ زید ہسپتال میں کینسر بلاک جبکہ بی ایم سی میں کارڈک ہسپتال بن رہا ہے نصیرآباد تفتان صحبت پور، سوراب میں نئے ہسپتال بن رہے ہیں صوبے میں ایک سو چار نئے بی ایچ یوز اور ڈیڑھ سو لیبارٹریز قائم کی گئیں۔ ٹیلی ہیلتھ کا نظام دس اضلاع تک پھیلادیا گیا ہے کوئٹہ میں چائلڈ کینسر کیئر یونٹ کے قیام کا ایم او یو ہو چکا ہے۔ مختلف ہسپتالوں میں 1300ڈاکٹرز کی تعیناتی کی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئٹہ موجودہ حکومت کی خصوصی ترجیح ہے کوئٹہ کے لئے تین سال میں تیس ارب روپے خرچ کئے گئے سریاب روڈ لنک بادینی روڈ ہنہ روڈ سبزل روڈ ریڈیو پاکستان روڈ بنائے گئے کوئٹہ کے لئے 7منی سپورٹس کمپلیکس، نواں کلی میں ہسپتال تعمیر کیا گیا ہے۔ کوئٹہ کا ماسٹر پلان بن رہا ہے جس میں ہر ٹاؤن کے لئے فنڈز مختص اور ساتھ ہی ان پر عملدرآمد کا میکانزم بھی بنایا جائے گا کوئٹہ میں پہلی بار چھ سے آٹھ نئے کالجز بنیں گے کوئٹہ میں پہلا گرلز کیڈٹ کالج تعمیر ہوگا جبکہ صحافیوں کی میڈیا سٹی کے لئے تین سو ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں بھی ترقیاتی منصوبوں پر کام ہورہا ہے جو ماضی کی حکومتوں نے نہیں کیا۔ا نہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی انڈوومنٹ فنڈ کے تحت 1500لوگوں پر فی کس لاکھوں روپے علاج کی مد میں خرچ ہوئے، بلوچستان عوامی انڈوومنٹ فنڈ کی رقم کو چار ارب سے بڑھا کر چھ ارب کردیاگیا ہے معذور افراد کے لئے کمک منصوبہ شروع کیا گیا ہے ماہی گیروں کے لئے ایک ارب روپے کا فنڈ رکھا گیا ہے جبکہ دو ارب کے انڈوومنٹ فنڈ سے فشر مین سوسائٹی بنائی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ کم لاگت سے ہاؤسنگ سکیم منصوبہ شروع کررہے ہیں جس سے غریب طبقے اور کمزور سرکاری ملازمین کو بھی آسان شرائط پر گھر مل سکیں گے انہوں نے کہا کہ صوبے میں 2600کلو میٹر سے زائد کلو میٹر روڈ ز تین سال میں تعمیر کئے گئے، تین سال میں 1445سکیمات مکمل ہوئیں میختر چمالنگ، تربت پسنی، ژوب میر علی خیل، نوتال تا گنداواہ کچلاک بائی پاس حب بائی پاس یارو پشین، صحبت پور تا کشمور، مانجھوشوریٰ تا غفور آباد سمیت سڑکوں کے کئی دیگر منصوبوں پر کام ہوا ہے انہوں نے کہا کہ صوبے کے تمام اضلاع میں 33سپورٹس کمپلیکس بن رہے ہیں بلوچستان سکوائش لیگ کروائی گئی 17سال بعد ہاکی کا ٹورنامنٹ کروایا گیا یوتھ پالیسی بنائی گئی ہے جبکہ بارہ نئے منی سپورٹس کمپلیکس بنائے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات میں ہر سکیم کے لئے 20فیصد ایلوکیشن رکھی گئی ہے دو سال میں 100بلین کا تھرو فارورڈ کم کیا گیا کورونا کے باوجود 70فیصد منصوبے مکمل ہوئے جبکہ پی ایس ڈی پی کی آٹومیشن بھی کردی گئیہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں تین ماربل سٹیز، 13کمرشل بارڈر مارکیٹس، ہائیٹ اور لیڈا کے انڈسٹریل یونٹس بحال، حب اور بوستان میں خصوصی اقتصادی زونز تعمیر کئے جارہے ہیں جبکہ صوبے میں آئرن کرشنگ،کول واشنگ، بیرائٹ کرشنگ پلانٹس او رماربل پلانٹ بھی تعمیر کئے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز کا ریونیو 56فیصدتک بڑھا ہے بلوچستان منرل ایکسپلوریشن کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے صوبے میں میٹل پارک تعمیر کیاگیا ہم نے 400غیر فعال لیز منسوخ کیں۔ منرل پر سیمینار کئے بلوچستان منرل پالیسی بنائی۔پانچ سو ملین روپے کی رقم مائنرز کے لئے مختص کی گئی ہے حکومت نے تین سال میں مائنز اینڈ منرلز کے شعبے میں 14ارب روپے خرچ کئے انہوں نے کہا کہ صوبے کے ساحلی علاقوں میں ریسٹ ایریاز بن رہے ہیں ساحلی علاقوں میں جی پی ایس ویسل سسٹم لگایا گیاہے۔7ایکو ٹورازم ریزارٹس بنائے جارہے ہیں 215لائف گارڈز کی آسامیاں تخلیق کی گئیں۔ فشریز آرڈی ننس میں ترامیم تجویز کی گئیں۔ صوبے میں 5بیچ پارک بنائے جائیں گے جبکہ سیلی کورنیا کی پلانٹیشن کی گئی ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا ماسٹر پلان بھی بنایا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت نے محکمہ جنگلات و جنگلی حیات پر بھی خصوصی توجہ دی ہے 10بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت وفاق کی نگرانی میں شجر کاری کی گئی 123ریاستی جنگلات کی حدود کا تعین کیا گیا پہلی بار جی آئی ایس لیبارٹری قائم کی گئی۔ خاران میں گیم ریزرو بنایا جارہا ہے زیارت میں نیشنل پارک بنایا جائے گا۔ چلغوزہ کے درختوں کا تحفظ کرنے کے لئے کام کیا جارہا ہے جبکہ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات میں 371اسامیوں پر بھرتی کی گئی اور بلوچستان کاؤنسل برائے تحفظ جنگلی حیات کو فعال کردیاگیا ہے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ محکمہ لائیوسٹاک کے تحت صوبے کی پہلی لائیوسٹاک ایکسپو کروائی گئی جانوروں میں وسیع پیمانے پر ویکسی نیشن کی گئی۔ ڈیرہ مراد جمالی میں سیمن پروڈکشن یونٹ قائم کیاگیا کوئٹہ میں کھالوں کے لئے مارکیٹ قائم کی گئی ہے جبکہ 20اضلاع میں موبائل انیمل ہیلتھ سروسز شروع کی گئی ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت نے زراعت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی ہے کافی عرصے سے اس شعبے کو نظر انداز کیا گیا تھا حکومت نے 50فیصد سبسڈی پر گرین ٹریکٹرسکیم شروع کی۔ گیارہ نئے بلڈوزر خریدے گئے ستر ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کیاگیا ٹڈی دل سے بچاؤ کے لئے 9.43ملین ہیکٹر ایریا پر سروے جبکہ 0.44ملین ہیکٹر علاقے پر سپرے کیا گیا انہوں نے کہا کہ حکومت نے گندم چاول سورج مکھی سمیت دیگر اجناس کے بیج پر خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے کہا کہ 900واٹر کورس تعمیر کئے گئے 361واٹر سٹوریج ٹینک بنائے گئے 87تالابوں کو سولرائز کیاگیا جبکہ ڈیڑھ سو گرین ٹنل سولر سسٹم سے منسلک کئے گئے سبکزئی اور میرانی ڈیم کے کمانڈ ایریا کو بڑھایا گیا صوبے کے سیب پیدا کرنے والے اضلاع میں 800ملین روپے کی لاگت سے کولڈ سٹوریج بن رہے ہیں صوبے میں زراعت کے لئے20ارب روپے رکھے گئے ہیں۔زیتون کے فروغ کے لئے 400ملین روپے رکھے گئے ہیں حکومت 50کروڑ کی لاگت سے لیزر لیولنگ مشینیں خرید رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ خوراک کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے پہلی بار کسانوں کو گندم کی قیمت 1600سے بڑھا کر2000روپے من کردی گئی کورونا کے دوران 22اضلاع میں سستا آٹا فراہم کیاگیا ایک لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدی گئی۔انہوں نے کہا کہ محکمہ خزانہ کے تحت وزیراعلیٰ بلاسود قرضوں کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے ایک ارب روپے کی لاگتسے بلوچستان بینک کا منصوبہ شروع کیاجارہا ہے نظام اور قوانین کو بہتر کیا گیا۔ بی پیپرا میں بہتری لائی گئی۔انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت کو دو حصوں میں تقسیم کردیاگیاڈاکٹروں کے لئے سات سو ملین کی لاگت سے رہائشی منصوبہ بنارہے ہیں صوبے کے کم وبیش تمام اضلاع میں ڈائیلاسز یونٹس بنائے جائیں گے۔ تفتان سمیت دیگر آرایچ سیز کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔تین سال میں صحت کے شعبے میں 160ارب روپے خرچ ہوئے جبکہ 5190تقرریاں کی گئیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں تین سال کے دوران حکومت نے تعلیم کے شعبے میں 8500بھرتیاں کیں۔ 277پرائمری سکول 240مڈل اور71ہائی سکول اپ گریڈ کئے گئے 8ہزار سے زائد لیپ ٹاپ تقسیم ہوئے۔ وزیراعلیٰ پروگرام کے تحت 100ہائی سکول اپ گریڈ کئے جارہے ہیں 160شیلٹر لیس سکولوں میں کمرے تعمیر کئے گئے ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے100نئے مڈل سکول بنارہے ہیں۔746سکولوں میں باتھ روم اور پانی کی سہولیات فراہم کریں گے 8سو سے زائد ای ایم آئی سیل فعال کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ کو بڑھا دیا گیا ہے ڈیرھ ارب کی لاگت سے 50نئے ہائی سکول تعمیر کئے جارہے ہیں مفت کتابوں کے لئے50کروڑ روپے خرچ کئے گئے 40کروڑ کی لاگت سے سکولوں میں فرنیچر فراہم کریں گے 12اضلاع میں خواتین ڈی اوز کے لئے گھر بنائے جارہے ہیں چار ارب روپے کی لاگت سے بلوچستان میں بورڈنگ سکول بنائے جائیں گے جن میں فی سکول 1500سے دو ہزار بچے تعلیم حاصل کریں گے۔ صوبے میں نئے گرلز کالجز بن رہے ہیں حکومت نے تعلیم کا بجٹ 83ارب روپے کیا ہے انہوں نے کہا کہ 45کالج اب تک اپ گریڈ ہوچکے ہیں 3.3ارب روپے کی لاگت سے37کالجز کو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں حکومت نے ٹیکنیکل ایجوکیشن ایکٹ منظور کرایا۔33کالجز کو بسیں دیں۔ محکمہ تعلیم کا آن لائن پورٹل بنایاچارٹرڈ اکاؤنٹنٹ انسٹی ٹیوٹ قائم کیاگیا کالج ٹیچرز کی ٹریننگ کی جارہی ہے 5.2ارب کی لاگت سے بیس نئے گرلز کالجز تعمیر کئے جائیں گے جبکہ15نئے بوائز ڈگری کالجز بھی بنائے جارہے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے 22ڈیم مکمل ہوئے سولرائزیشن کی 44سکیمات شروع کی گئیں۔ 18واٹر بیسنز میں جدید نظام لگایاگیا بولان نولنگ گروکی، بسول، سرہ خولہ، شنزنی ڈیم پر کام جاری ہے جبکہ صوبے میں چھوٹے چیک ڈیم بھی بنائے جارہے ہیں کچھی کینال کو واپڈا سے لے لیا گیا ہے کمانڈ ایریا کو بہتر کرنے کے لئے 4.7ارب روپے خرچ ہوں گے وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئٹہ کے اطراف میں قائم 40سے50کرش پلانٹس جو ماحول کو نقصان پہنچا رہے تھے انہیں بند کیا گیا اینٹھوں کے بھٹوں کو زگ زیگ نظام پر منتقل کیاگیا سولڈ ویسٹ ڈی سلینیشن پلانٹ پر بھی کام جاری ہے انہوں نے کہا کہ امن وامان کی بہتری حکومت کی ترجیحات میں سے ہے تین سال کے دوران پولیس میں 4429بھرتیاں کی گئیں جرائم پیشہ افراد کا ڈیٹا مرتب کیا گیا پولیس ایف آئی آر کا نظام ڈجٹیلائز کردیا گیا ہے کوئٹہ میں ڈیٹاکمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر بنایاگیا ہے لیویز میں کیو آر ایف آئی ٹی انوسٹی گیشن سی پیک بم ڈسپوزل سمیت دیگر یونٹس بنائے گئے جبکہ اہلکاروں کو تربیت دی جارہی ہے تین اضلاع میں بی ایریا کو اے ایریا میں تبدیل کردیاگیا ہے آنے والے سال میں بلوچستان کے دس سے پندرہ اضلاع میں کمانڈ سینٹر بنائیں گے سی ٹی ڈی کے دفاتر کو اضلاع میں منتقل کیا جائے گا۔ پراسیکیوشن لاء جوڈیشری کے لئے3ارب کا پیکج رکھا ہے لیویز میں 4200بھرتیاں کی گئی ہیں وزیراعلیٰ نے کہا کہ گرین بسوں کا منصوبہ اسی سال مکمل ہوجائے گا۔ جبکہ سی ایم ڈی یومیں بہت سے اقدامات اٹھا کر نظام کو تیز تر اور شفاف بنایا جارہا ہے۔ فائلوں کو بروقت نمٹانے کے لئے وقت مقرر کیا گیا ہے جبکہ وزیراعلیٰ شکایتی پورٹل بھی قائم کردیاگیا ہے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت نے تین سال میں 25ہزار نوکریاں دی ہیں تین سال کے دوران 10ہزار سمریاں، 34کابینہ اجلاس ہوئے جن میں 618ایجنڈا نمٹائے گئے 55بلز پیش اور ان میں ترامیم کی گئی ہیں حکومتی عہدیداروں نے 29اضلاع کے دورے کئے۔44بل پاس ہوئے 107کا جائزہ لیا گیا سروس رولز میں 98ترامیم کی گئیں۔65بار مختلف اضلاع کے دورے 550سرکاری اجلاس ہوئے 340سیاسی ملاقاتیں ہوئیں،انہوں نے کہا کہ صوبے کے 5آثار قدیمہ کو دوبارہ ریوائیو کررہے ہیں جبکہ متعدد نوادرات بیرون ملک سے واپس لائے گئے کوئٹہ میں 17نئے پارکس بنائے جارہے ہیں، کوئٹہ خضدار لسبیلہ گوادر سمیت دیگر علاقوں کے سیاحتی مقامات کے لئے ریسٹ ہاؤسز سڑکیں سہولیات بنائی جارہی ہیں جبکہ ڈریگ ریس کے لئے کوئٹہ میں سہولت فراہم کی جائے گی۔حکومت نے چار سو سے زائد سے نئی ٹرائی سائکل اور چنگ چی فراہم کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ٹی ٹی سی دارالامان سمیت انسداد منشیات مراکز بنائے اور فعال کئے جارہے ہیں 15سو نوجوانوں کو ٹریننگ دی جارہی ہے۔حکومت نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ منظور کیا وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لئے کام کرے ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے اسمبلی وہ فورم ہے جہاں پر بات ہوتی ہے ریکارڈ کا حصہ بنتی ہے اگر ہم محلے یا کہیں اور تقریر کرتے ہیں تو اس کی اتنی اہمیت نہیں جتنی اہمیت اس فلور پر بات کرنے کی ہے انہوں نے کہا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ اپوزیشن نے کہا کہ بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا جبکہ بجٹ منظوری سے پہلے کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس میں کونسے منصوبے ہیں کیونکہ یہ حکومت کی صوابدید ہے لیکن اپوزیشن کو کیسے پتہ چلا اور انہوں نے بجٹ تقریر سنے اور بجٹ پڑھے بغیر بجٹ کو رد کردیا اگر اپوزیشن بجٹ سننے آتی اور بعد میں رد کردیتی تو ہم جواب دیتے اگر وہ ہمیں قصور وار ٹھہراتے تو ہم قصور وار بھی ہوتے مگر بجٹ پیش ہونے سے قبل ہی بجٹ رد کردینے پر مجھے بہت حیرت ہوئی انہوں نے کہا کہ بجٹ اجلاس کے دوران سیکورٹی فورسز نے بھی صبر وتحمل کامظاہرہ کیا اپوزیشن کی خواہش تھی کہ خون خرابہ ہو لیکن حکومت نے بجٹ کے لئے ایوان کے تحفظ اور نظم کو قائم رکھا ہم نے اپوزیشن سے بار بار کہا اور ہمارے نمائندے بھی ان کے پاس گئے کہ وہ ایوان اور اسمبلی کو عزت دیں مگر انہوں نے یہ نہیں کیا آج اپوزیشن کو اجلاس میں کٹوتی کی تحاریک لانی چاہئے تھیں وہ اپنا موقف رکھتے اور نشاندہی کرتے مگر بجٹ اجلاس میں ریکارڈ میں اپوزیشن خاموش ہے انہوں نے کہا حکومت اپنی تمام تر کارکردگی آن لائن کرے گی تاکہ عوام خوداسے دیکھیں تجزیہ کریں اور کارکردگی بہتر بنانے کی نشاندہی کریں۔


