ملکی نظام انصاف بے ثمر

وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں رائج انصاف کا نظام طاقتور کو نہیں پکڑ سکتا۔اس کا دائرہ کار غریبوں، بیکسوں اور کمزور لوگوں تک محدود ہے۔انہوں نے چوتھے خلیفہئ راشدحضرت علیؓ کا قول دہراتے ہوئے کہا کہ کفر کا نظام چل سکتا لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ اس موقع پر انہوں محمد ﷺ کی معروف حدیث بھی یاد دلائی جس میں آپؐ نے فرمایا ہے:”اگر میری بیٹی کوئی جرم کرے گی تو اسے بھی سزا دی جائے گی،پہلی قومیں اسی لئے تباہ ہوگئیں کہ وہ غریب کو سزا دیتی تھیں مگر دولت مند اور بااثر مجرم کو چھوڑ دیتی تھیں“۔انہیں جلسے کے شرکاء سے خطاب کے دوران مذکورہ دونوں اقوال تو یاد رہے مگر یہ یاد نہیں رہا وہ گزشتہ تین سال سے اس ملک کے وزیر اعظم ہیں جہاں انصاف کا نظام اتنا ناقص ہے کہ بڑے مجرم پر ہاتھ ڈالنا اس کے بس میں نہیں۔سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں ان کی حکومت نے کتنی قانونی اصلاحات کیں؟وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے حلف برداری کے بعد ایک ٹی وی چینل پر بڑے اعتماد سے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ضابطہئ فوجداری اور دیوانی(CriminalاورCivil پروسیجر کوڈ)پر اتنا کام کر لیا ہے جتنا برطانیہ اور یورپ میں بھی نہیں کیا گیا۔15دن سے90دن میں مقدمات کے فیصلے سنانا ممکن ہو جائے گا،اسٹے آرڈر کی درخواست زیر سماعت ہونے کے باوجود اصل مقدمے کی کارروائی نہیں رکے گی۔اسٹے آرڈر پر مقدمے کی کارروائی برسوں رکے رہنے کا سلسلہ ختم ہاجائے گا۔یہ بات شاید وزیر قانون کو بھی معلوم نہیں تھی کہ مافیاز کے ہاتھ قانون سے کہیں زیادہ لمبے ہیں۔مافیاز نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ وزیر قانون کو ایک سے زائد مرتبہ اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر حکومت کی وکالت کے لئے عدالتوں کے روبرو پیش ہونا پڑا۔اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ قابل بھروسہ وکلاء کا بھی کال پڑا ہوا ہے، حکومت کی پیروی کرنے والا وکیل اس ملک میں دستیاب نہیں، بیرسٹر فروغ نسیم دونوں ذمہ داریاں نبھاہتے ہیں۔قانونی اصلاحات والی فائلیں ان کی الماری میں بند اس دن کا انتظار کر رہی ہیں جب انہیں پارلیمنٹ میں پیش کرکے منظوری لی جائے گی۔مالم جبہ، بی آر ٹی، بلین ٹری منصوبہ، شوگر مافیا کی انکوائری رپورٹ سمیت سب کچھ اسٹے آرڈر کی نذر ہوگیا ہے یا کہیں پسِ دیوار کوئی مک مکا کر لیا گیا ہے۔رفتار سست ہونے کے اسباب ہوں گے، وزیر قانون دوچار بار مستعفی ہونے اور حلف برداری کی رسومات ادا کرنے کے بعد سمجھ گئے ہوں گے کہ اکیلے کچھ نہیں کر سکتے،اب وزیر اعظم جلسوں میں اپنی حکومتی یاپارلیمانی بے بسی کو چھپانے کے لئے انصاف کے ناقص نظام کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔انہوں نے بڑے پتھر سے الجھنے کی بجائے احساس پروگرام اور پناہ گاہوں جیسے بے ضرر کام پر اپنی توجہ مرکوز کر لی ہے،اس لئے کہ یہ ان کا دیکھا بھالا راستہ ہے،وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ لوگ خیرات دیتے ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے۔چنانچہ وہ ٹیکس کا تقاضہ نہیں کرتے،خیرات کی وصولی میں دونوں جہان کی نجات کاچانس لینے میں مصروف ہیں۔ٹیکس وصولی جانے اور وزیر خزانہ شوکت ترین جانے۔جس کا کام اسی کو ساجھے۔پارلیمنٹ کا بنیادی فرض ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود(صحت،تعلیم،روزگار کی فراہمی)، ملکی ترقی اور استحکام کے لئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق قانون سازی کرے،لیکن وہاں قانون سازی کے علاوہ سب کچھ کیا جاتا ہے، سب واقف ہیں، دن رات دیکھ رہے ہیں،دہرانے کی ضرورت نہیں۔حکومت صحت کارڈ تقسیم کرنے میں لگی ہوئی ہے، مان لیا غریب خاندان کے لئے 7اور10لاکھ روپے تک کسی بھی اسپتال میں علاج معالجے کی سہولت ایک نعمت سے کم نہیں، مگر درمیانہ طبقہ اپنی سفید پوشی کا بھرم کیسے رکھ پائے گا؟ اس بارے کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ کراچی کے سب سے بڑے ویکسین سینٹر کے عملے نے 3ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پر احتجاج کر رہے ہیں،نجی اسپتال میں عارضہئ قلب کے لئے کارڈ استعمال کرنے والے نالاں ہیں کہ ٹیسٹ اور روم چارجز کارڈ کا بڑا حصہ کھا جاتے ہیں۔سفید پوش کہاں جائیں؟ وزیر اعظم ان کے بارے میں بھی کوئی حکمت عملی وضع کریں۔ نئے مالی سال کا پہلا مہینہ ہے، انیس دن گزرے ہیں،حکومتی مالیاتی کارکردگی کی جانچ پڑتا ل کے لئے یہ مدت حد درجہ ناکافی ہے،تین ماہ تک تو آئی ایم ایف بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے گا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے سہ ماہی رپورٹ جاری کئے جانے کے یہی معنے لئے جائیں کہ تین ماہ تیل اور اس کی دھار دیکھی جائے۔عالمی بینک اپنی جائزہ رپورٹ دیتا ہے۔ان سب کا ردعمل سامنے آنے سے ماہرین معیشت کو اپنی رائے دینے میں مدد ملتی ہے،برسوں سے یہی ہورہا ہے، برسوں تک ہوتا رہے گا۔عام آدمی معاشی استحکام یا ترقی کی رفتار اپنے کچن کے ذریعے ناپتا ہے۔اس کا کچن دستیاب آمدنی میں چل جائے تو وہ مطمئن ہے ورنہ اس کا لہجہ تلخ ہوجاتا ہے،نجی ٹی وی چینلز عوام کی ناراضگی حکومتی عہداران تک پہنچاتے رہتے ہیں تاکہ وہ بھی باخبر ہوجائیں اور اگر کچھ کر سکتے ہیں تو کرلیں کہ اقتدار کا چوتھا سال ہے۔وزیر اعظم خود بتا چکے ہیں کہ انہیں بیشتر اطلاعات ٹی وی دیکھ کر ملتی ہیں۔ٹی چینلز کی ترجیحات آج کل انتخابی گالم گلوچ پر منتقل ہو گئی ہیں، طاقتور کو پکڑنے والا نظام انصاف لانا پی ٹی آئی کا انتخابی نعرہ تھا،اس نعرے کو عملی روپ میں ڈھالا جائے۔قانون میں موجود ہر قسم کے سقم دور کئے بغیر مطلوبہ نظام انصاف نہیں قائم ہوگا۔سب سے بڑا سقم یہ ہے کہ ججز فیصلہ اپنے ”خیال“کے مطابق سناتے ہیں، فیصلے کا آغازکرتے ہیں: In my opinion۔۔۔۔۔۔ججز کو پابند بنایا جائے کہ وہ مذکرہ الفاظ کی جگہ لکھیں:In the eyes of law the defendant(s) has failed to prove his innocence.
اور ججزکوفیصلے میں متعلقہ قانون کی عبارت لکھنے کا پابند بنایا جائے۔نظریہ ضرورت کے تحت آئین کو طویل عرصہ تک غیر مؤثر بنانے اور تین سال تک کسی غیر مجاز شخص کوآئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دینے وال جج یا(ججز)اس آئینی شق کا حوالہ دے جس کے تحت وہ ایسا اختیار دے رہا ہے۔۔۔ اسی طرح کسی ملزم کو گرفتاری سے 10روز قبل چھاپہ مارنے کی اطلاع دینے کا قانون لکھا جائے،اس کے بغیر عدالتی فیصلہ غیر قانونی سمجھا جائے۔یاد رہے کہ ججزقانون کے مطابق فیصلہ دینے کے پابند ہیں، ذاتی رائے قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتی اور نہ ہے۔ایک یک سطری ترمیم تو وزیراعظم عمران خان اگر چاہیں، پارلیمنٹ سے منظور کرا سکتے ہیں۔ کرالیں، انصاف کا نظام طاقتور ہوجائے گا۔اربوں روپے کی ٹی ٹی چپڑاسیوں،اور پاپڑ والوں کے نام پر اپنے اکاؤنٹس میں منگوانے اور خرچ کرنے والا کیسے ”بیگناہ“ ہوسکتا ہے؟کرمنل ایکٹ میں ”زائد المیعاد“ ہونا کہاں لکھا ہے؟ متعلقہ جج کو فیصلے میں لکھنے کا پابند کیا جائے، انصاف کا نظام طاقتور ہوجائے گا۔ملکی نظام انصاف بے ثمر

اپنا تبصرہ بھیجیں