کرونا اور حکومتی اقدامات
تحریر: کاشف یعقوب
دسمبر 2019 اس نسل کی سیاہ ترین سال و ماہ میں سے ایک ہے کہ دنیا ایک قاتل، بے رحم اور خطرناک وباء سے دوچار پڑا چین کے شہر ووہان سے انسانی زندگی کو مفلوج کرکے یہ آج دنیاکے اکثر ممالک تک پھیل چکا ہے اب تک ایک لاکھ سے زائد اموات اور کئی اب تک بستر مرگ پر ہیں۔ ایک ایسی وباء جس نے ترقی یافتہ ممالکوں اور ان کی مشینری کو محدود کرکے رکھ دیا ہے تیسری دنیا میں ان ممالک کی بلند بانگ کی باتیں ختم نہیں ہوتیں وہی یہ ممالک آج سے وباء سے دوچار ہیں اب تک یہ ایک عالمی وباء قرار دیا جاچکا ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے وفد نے اسے ایک نسل کی جنگ قرار دےدی۔ میڈیکل سائنٹسٹ آج اس وباء سے نمٹنے کے لئے آئے دن نئے تجربات سے کام لیتے ہوئے انسانوں جانوں کو محفوظ کرنے کے لئے کوشاں اور وہی ریاستی ذمہ داریوں کی بات کریں تو پچھلے کچھہ وقتوں میں ترقی یافتہ ممالک میں ریاست واقعی ماں کا کردار نبھاتے ہوئے دکھائی دیگی کہ اگر عوام ہوگی تو ریاست ہوگی آج جہاں دنیا کی معیشت تبائی کے دہانے پر آں پہنچی وہی ریاست ہر فرد کو اسکی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں کوشاں ہے کہ وائرس سے کوئی جاں بحق ہو تو ریاست خود کو اتنی زمہ دار نہ کئے مگر کوئی فاقہ سے مرے تو یہ تاریخی بدنامی ہوگی کہ ریاست ماں ہونے کے باوجود اپنے لوگوں کا خیال نہ رکھ سکا۔
وہی دوسری جانب ہماری ریاست نے اس مشکل کی گھڑی میں لوگوں کو فاقہ سے نہ مرنے کے لئے بس ایک ہمت، حوصلہ اور صبر رکھنے کی تلقین کی ہے اگر ایک گھر میں چار بچے بھوکے ہیں تو والد ان سے یہ کہہ کر ایک رات تو گزار سکتا ہے کہ کل اچھا کھانے کا بندوبست ہوگا مگر شاید دوسری رات نہ کٹ سکے کہ بھوکے پیٹ سونا ممکن نہ ہو۔
وہی حکومت اپنے عوام کے لیے عملی اقدامات سے گریزاں رکھتے ہوئے آئے دن دعوؤں پہ دعوؤں کررہی ہے شاید یہ باتیں ہی کسی غریب کا پیٹ بھر سکیں گی۔ یہ وائرس جو بنا رنگ و نسل دیکھتے ہوئے ہر ایک انسان کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ رہا ہے وہی لوگ بھوک سے بدحال ہوکر اس وائرس سے مرنا قبول کرکے بھوک کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں لاک ڈوان کے باوجود لوگ بنیادی ضروریات و کھانے کی اشیاء کے لئے روڈوں پہ سرا پہ احتجاج ہے کہ وہ بھوک سے مر جائیں گے کیونکہ اس ملک میں تو بس دو ہی طبقے وجود رکھتے ہیں ایک امراء کا طبقہ دوسرا غریب عوام جس کا خون چوس چوس کہ امراء نے اپنے لئے محلات بنائے اور غریب آج بھی کچے مکانوں میں بھوک سے مررہا ہے۔
حکومت کی جانب سے کتنے لوگوں کو راشن دیا جارہا شاید اس کا اعداد وشمار ہی نہ ہوسکے کیونکہ لوگوں کے گھر جتنے بھی راشن پہنچانے جارہے ہیں وہ غیر حکومتی ادارے ہی ہیں لاک ڈاون کرنے سے اس وائرس کو روک لینگے مگر بھوک کو کیسے روک سکو گے۔ یہ عوام آج سے نہیں بلکہ ازل سے بھوک سے مررہی ہے مگر کم از کم پہلے مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی تو نصیب تھی اب وہ بھی نہیں۔
میڈیا ریاست کے ضروری اور اہم ستون میں سے ایک ہے اور ہمارا میڈیا ماشااللہ کسی دشمن کی نظر نہ لگے اب تک عوام کو اس بات کے لئے مطمئن نہ کرسکا کہ واقعی یہ وباء وجود رکھتی ہے اور لوگ مررہے ہیں اور لوگ یقین کیسے کرسکتے ہیں کہ اتنے جھوٹ بول کر سچ کا جو قتل ہوا ہہی عوامی سچائی تھی وہ جسے میڈیا نے اپنے رنگ برنگی بہانوں سے مٹا دیا آج ہر روز ہر ایک شخص میڈیا سے منسلک ہے مگر یقین نہیں کر پارہا آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جس نے اس عوام کے یقین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ میڈیا کا منفی کردار ہے بقول ایک فلسفی کہ ایک جھوٹ کو سو بار دہرانے سے وہ سچ لگنے لگتا ہے
وفاقی حکومت کے پاس پیسے نہیں اور صوبائی حکومت نے اپنی آنکھیں وفاقی حکومت پہ یہ آس لگائے بیٹھی ہیں کہ کب لوگ اس وباء سے نہیں بلکہ بھوک سے مر سکیں یورپ اور امریکہ کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ انہوں نے اس بات کو معلوم کر لیا کہ انکے پاس کتنے لوگ ایسے ہیں جو متاثرین ہے اور ہمارے پاس وسائل ہی نہیں کہ اب تک درست اعداد وشمار معلوم ہوسکیں کہ متاثرین کی تعداد کتنی ہے۔
وہی دوسری جانب عوامی سطح پہ بد گمانیاں پھیلائی جارہی ہیں کہ یہ وباء کچھ نہیں بس ایک سازش ہے میں یہ دیکھ کر حیران ہو کہ ایسے سقراط پیدا کیسے ہوتے ہیں جنہیں سب کچھ معلوم ہے پھر یہ معلوم نہیں کہ کیونکر وہ یقین نہیں کر پارہا کہ یہ ایک مذاق نہیں۔
وہی دوسری جانب نجی ادارے یہ کوشش میں ہیں کہ لوگوں تک راشن پہنچا سکیں اب تک تو ہی ضرورت مند ہے اب سب کو کھانا چاہیے شاید یہ ممکن نہ یو مگر ایک بات کا پردہ پاش ہوگیا کہ اس حکومت نے یہ تو دیکھ ہی لیا کہ اب تک صحت کی حالت کیا تھی۔
لیاری جس کی نصف آبادی مزدور طبقے سے تعلق رکھتی ہے آج لوگ روڈوں پہ آنے پر مجبور ہیں کہ ہم بھوک سے مر جائیں گے حکومت و میڈیا عوامی اعتماد کھو چکے ہیں عوام میں یہ بات قابلِ اعتبار نہیں کہ یہ واقعی خطرناک و قاتل وباء ہے۔ کیونکہ ہم اتنے تجرباتی بن چکے ہیں جب تک آنکھوں سے موت کو نہیں دیکھیں گے تب اس بات پہ بھی یقین کرنا مشکل ہے کہ موت واقعی وجود رکھتی ہے۔ لوگ تب تک گھروں میں رہیں گے جب تک انکا چولہا جل رہا ہے اور جب یہ چولہا بجھ جائےگا لوگ مجبوراً باہر نکلیں گے بھوک کے خلاف۔