مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے

حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے ایک سے زائد باراپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔حکومت کے لئے ناکامی کا اعتراف کرنا بھی آسان نہیں ہوتا،لیکن پاکستان کے عوام ذمہ داران کی زبان سے اپنی کسی غلطی یا ناکامی تسلیم کرنے کو بھی ترس گئے تھے۔مہنگائی کہنے میں تو ایک مسئلہ ہے مگر حل کرنے کے اقدامات کرتے وقت محسوس ہوتا ہے اس کی ڈوریاں متعدد طبقات ہلاتے ہیں جنہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی اور وزیر اعظم ہاؤس تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔مہنگائی بڑھانے کے فیصلے کابینہ کے اجلاس میں نہیں ہوتے وزراء تک فائل ان کے گھروں یا دفاتر تک بھیج کر دستخط کرا لئے جاتے ہیں۔اس خفیہ عمل کو ”کابینہ سے منظوری لینا“کہتے ہیں۔جبکہ عوامی زبان میں کہتے ہیں:’وزیر مافیاز کی کٹھ پتلی ہیں‘، مافیاز کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔جو وزیر مافیا کے اشاروں بروقت ناچنے سے انکار کر دے، دیر کرے،وہ کسی بہانے سے کابینہ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔محکمہ صرف اس وزیر کا تبدیل کیا جاتا ہے جو وزیر اعظم کا لاڈلا ہو، یا کسی کا دست شفقت اس کے کندھے پر ہو۔مافیا سے مراد منافع خوروں کا وہ گروہ ہے جو اپنے خرچ سے اپنے باصلاحیت اور چرب زبان نمائندے کو الیکشن جتوا کر پارلیمنٹ کا رکن اور پھر اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے کابینہ کاحصہ بناتے ہیں۔یاد رہے اس فارمولے کے مطابق وزیر بننے والے عموماً اپنے سرپرستوں کی تاحیات تابعداری پر فخر کرتے ہیں، بعض وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھا نے کے بعد میڈیا کے روبرویا جلسہئ عام سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی فدویانہ انداز میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں:
”میں وزیر اعظم نہیں ہوں، وزیر اعظم میری پارٹی کا تاحیات سربراہ ہے“۔
اس رویہ کو سکہ بندسیاسی زبان میں حالات کاجبرکہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔چنانچہ یہ معاشرتی اورنفسیاتی باریکیاں سمجھے بغیر مہنگائی کم کرنے کی بات نہیں کی جا سکتی۔لطف کی بات یہ ہے کہ عام آدمی اپنے کچن کی بجٹ سازی سے ان باریکیوں کوبرسوں پہلے سمجھ چکاہے، واقف ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ تین سال سے خاموش ہے، اپوزیشن کی جوشیلی تقریریں بھی عام آدمی کو مشتعل نہیں کر سکیں۔اسمبلی میں تکلیف دہ اور شرمناک ہنگامہ آرائی بھی اپوزیشن کے کام نہیں آئی۔گلگت بلتستان اور کشمیر کے انتخابی نتائج عام آدمی کا خاموش سیاسی جواب ہو سکتا ہے۔جس پارٹی کی نائب صد راپنے مخالفین کو یاد دلاتی تھیں:”تمہاری اوقات صرف2سیٹوں کی تھی، اور ہے“،اس پارٹی کو الیکشن میں 2×3=6 سیٹیں ملیں اور آج اس کے ترجمان ٹی وی ٹاک شوز میں میزبان کو سمجھارہے ہیں،گیلپ سروے غلط تھا۔اس تناظر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ مہنگائی کاجن بوتل میں بند کرنے کی خواہش اس وقت پوری ہوگی جب زمینی حقائق تسلیم کئے جائیں گے۔ماننا پڑے گا کہ پاکستان بنیادی طور پرایک زرعی ملک ہے۔ قدرت نے اسے بڑی فیاضی سے وسیع و عریض زرخیز زمین،سارا سال بہنے والے دریا، چار موسم اور محنتی اور 22کروڑ جفاکش شہریوں سمیت تمام وسائل عطاکئے ہیں مگرگزشتہ چار دہائیوں میں انتہائی بے حسی اور احمقانہ انداز میں ان سے بے اعتناعی برتی گئی۔دریائی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم نہیں بنائے گئے۔اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ قدرت کا عطا کردہ قیمتی عطیہ نعمت بننے کی بجائے سیلاب کی شکل میں اپنے راستے میں آنے والی آبادیوں اورتیار فصلوں کو روندتا ہواسمندر کا حصہ بنتا رہا۔ سڑکوں اور پلوں کی شکست و ریخت اس کے علاوہ ہوئی۔اربوں ڈالر حکومتی غفلت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اور جب دوست ممالک اس خود اختیار کردہ”دکھ“کے موقع پر امدادی سامان اور بعض اوقات کسی ملک کی خاتون ِاوّل اپنے گلے کا قیمتی ہارسیلاب زدگان کی بحالی کے انسانی جذبے کے تحت اور اَللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پیش کرتی تو ہمارے اس وقت کے ”وزیر اعظم“اس خیرات کو قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے اپنی جیب میں ڈال کر اپنے گھر لے جاتے تھے، کیونکہ قانونی طور پر وہ خود کو اس کا مجاز سمجھتے تھے۔ اس عمل کو دیکھ کر اندازہ لگانے میں کوئی دشوار نہیں ہوگی کہ لالچ اور خودغرضی کس انتہاکوچھو رہی تھی؟ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تحائف گھر لے جانے کی قانون سازی بھی یہی حکومتیں کرتی تھیں۔ واضح رہے جب حکمران عوامی مفادات سے آنکھیں بند کرلیں، ذاتی اور گروہی مفادات انہیں کردار کی اس قدرپستی تک لے جائیں تو ملک دالیں، گندم، چینی،خوردنی تیل سمیت سب کچھ درآمد کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ طویل عرصے تک یہی کچھ ہوتا رہا۔پی ٹی آئی کے اہم انتخابی نعرے دو تھے:چوروں لٹیروں سے لوٹی ہوئی قومی دولت وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرانا اور نظام عدل میں بہتری لاناتاکہ عوام کوفوری اور سستا انصاف میسر آئے۔مگر ان دونوں نعروں کو عملی جامہ پہنانے کی رفتار بوجوہ بہت سست ہے۔عام آدمی کو اس وقت مایوسی ہونے لگتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ بعض نامی گرامی ”چور اور ڈاکو“وزیر اعظم کے دائیں بائیں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ سہ پہر کوکابینہ کے اجلاس میں چائے پیتے ہیں اوررات کو پر تعیش ڈنرمافیا کے ہمراہ پر شکوہ گھر کے وسیع لان میں کھاتے ہیں۔ عوامی موڈمیں رچی بسی معصومانہ بے نیازی سے یہی تأثر ملتا ہے کہ ایسے ماحول میں موجودہ حکومت سے آسمان کے تارے توڑ کرلانے کی فرمائش مناسب معلوم نہیں ہوتی۔البتہ حکومت کی رہنمائی کے لئے مشورے دیئے جا سکتے ہیں،سمجھایا جا سکتا ہے کہ مہنگائی کا خاتمہ اس وقت ممکن ہوگا جب سنجیدگی اور خلوص سے زراعت پر توجہ دی جائے گی۔اسے ملکی معیشت میں مناسب مقام دیا جائے گا۔اشیائے خوردنی اَللہ کی زمین پر اس وقت اگتی ہیں جب اس زمین کو اچھے بیج کے علاوہ درکار درجہئ حرارت پرپانی ملے۔پانی کی سارا سال فراہمی کے لئے چار اقدامات درکار ہیں: اول:ملک کے چپے چپے پر چھوٹے، درمیانے اور بڑے ڈیم پہلی ترجیح کے طور پر تعمیر کئے جائیں؛ دوم:غریب اور چھوٹے کسانوں کی حسب ضرورت اس طرح مالی مدد کی جائے کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو؛ سوم:اچھے بیج، اچھی کھادکی فراہمی کا معقول بندوبست یقینی بنایا جائے، جعلی کھاد بیچنے والوں کو کم از کم 10سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ کی سزا موقع پر سنائی جائے؛ چہارم: چھوٹے کسان کی قوت خرید کے مطابق ٹریکٹرز کی خریداری کے عمل کو آسان بنایا جائے؛ پنجم:حکومت بجٹ اجلاس کے دوران کرائی گئی یقین دہانیوں کو عملی جامہ پہنائے۔ ورنہ وزیر خزانہ شوکت ترین یاد رکھیں آئی ایم ایف گردن دبوچ لے گا۔ ترقی اور خوشحالی خواب بنی رہے گی،اسے تعبیر نہیں ملے گی۔ اور 6ماہ میں پارلیمنٹ میں سیٹ جیتنا ممکن نہیں رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں