اللہ والے

تحریر:علی احمد کورار

گزشتہ روز میں بھٹو صاحب کی سندھی میں تقریر سن رہا تھا جس میں وہ ایک فقیر کا واقعہ بتا رہے تھےکہ تخلیق پاکستان سے قبل لاڑکانہ سے ہم ٹرین کے ذریعے بمبئی جاتے تھے اس وقت لوگ جمعہ کے دن خیرات کا اہتمام کرتے تھے ہم بھی اسی روز خیرات کرتے تھے ایک فقیر اسی روز ہمارے ہاں خیرات کے لیے آتا تھا ایک دن اس فقیر نے مجھ سے کہا آج ٹرین لاڑکانہ سے بمبئی نہیں جائے گی میں اسے اپنی روحانی طاقت سے جانے نہیں دونگا میں اس وقت چھوٹا تھا اس بات کو سچ سمجھ بیٹھا اور اپنے والد سے کہا کہ فقیر کہ رہا ہے میں ٹرین کو جانے نہیں دونگا والد صاحب نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے۔میں پریشان تھا میں پھر فقیر کے پاس گیا اسے کہا کہ ایسے نہیں کرو ٹرین کو جانے دو اس نے کہا اچھا ٹھیک ہے ایسے کریں آپ ایک سو روپے لائیں میں پھر باز آجاوں گا اس وقت ایک سو روپے بڑی رقم تھی میں دوڑا دوڑا والد صاحب کے پاس گیا اور مطلوبہ رقم کامطالبہ کیا کہ وہ یہ رقم فقیر کو دیں گے پھر وہ ٹرین کو جانے دیں گے۔والد نے مجھے سمجھایا ان میں کوئی روحانی طاقت نہیں یہ ٹھگ ہے۔ٹرین تو اس دن نہیں رکی لیکن اس ٹھگ کی زبان آمین ہوگئی پھر ٹرینیں ٹائم تک نہیں پہنچیں اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔خیر! مجھے اپنا ریل۔کا سفر یاد آیا شاذ ہی ٹرین میں سفر کرنے کا اتفاق ہوتا ہےٹرین کھچا کھچ بھری ہوئی تھی بیٹھنے کے لیے جگہ کا کوئی بندوبست نہیں ہو پا رہا تھا لیکن کسی بوگی میں بیٹھے باریش حلیہ اور وضع قطع سے مذہبی شخص نے بیٹھنے کی جگہ دی میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر رسماً علیک سلیک ہوئی میرے دریافت کرنے پر اس نے مجھے بتایا کہ میں فلاں محکمہ میں ڈی جی ہوں میں نے کہا کہ سر پھر آپ کے پا س تو سرکاری گاڑی بھی ہوگی آپ اس پہ سفر نہیں کرتے اس نے کہا ہاں ہے لیکن میں ذاتی کام کے لیے استعمال نہیں کرتا۔پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے پاس اپنی ذاتی گاڑی بھی نہیں اس نے جوباً کہا نہیں ہے۔باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ کاشتکاری کے لیے تھوڑی سی زمین بھی ہے لیکن اس نے اپنی آمدنی کا 50 فی صد غریبوں کی امداد کے لیے وقف کر رکھا ہے۔اپنی آدھی تنخواہ بھی ہر ماہ محلے کے غریب ونادار خاندانوں میں بانٹ دیتا ہوں۔بس رب کا شکر ہے جو بچتا ہے اس میں گزارا ہو جاتا ہے۔اس نے کہا کہ میں یہ آپ کو بتانا اس لیے مقصود سمجھتا ہوں بیٹا!دنیا میں انسان کا اصل امتحاں ہی یہی ہے مخلوق خدا کی خدمت کرنا یہ دنیا عارضی ہے۔ دولت شہرت سب دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ خدمت خلق سے رب تعالی کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔جتنا ہو سکے غریبوں اور ناداروں کی امداد کریں۔واقعی مخلوق خدا کی خدمت ہی زندگی کا اصل سرمایہ ہے۔
چند ماہ قبل ہمارے ایک دیرینہ دوست نے Supporting the poor کے نام سے ایک ٹرسٹ کا آغاز کیا تھا مشاورت کے بعد یہ طے ہوا ہر دوست ہر ماہ قلیل سی رقم ٹرسٹ کے لیے دے گا گا جس سے ہم کسی غریب لاچار بیمار کو عطیہ کریں۔رفتہ رفتہ اس سلسلے کو بڑھایا اور غریبوں اور لاچاروں کی امداد کا سلسلہ شروع ہوا اور اب بھی جاری وساری ہے اور انشااللہ جاری رہے گا۔مشکل کی اس گھڑی میں جب کورونا وائرس نے نظام زندگی کو مفلوج کردیا ہے غریب دیہاڑی دار گھروں میں مقید ہو چکے ہیں وہ ہماری امداد کے منتظر ہیں لیکن یہ ٹرسٹ ہمہ وقت غریبوں کی امداد میں مصروف ہے دوست احباب دل کھول کر امداد کر رہے ہیں۔مزید اس ٹرسٹ کے لیے تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت کئی غریب گھرانے فاقوں پہ مجبور ہیں یہی وقت ہے کہ خدمت خلق کا مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ Supporting the poor ٹرسٹ میں اپنا حصہ ڈالیں۔
بھٹو صاحب والی متذکرہ بات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ضروری نہیں اللہ والے جبے اور چوغے کی صورت میں ہوں۔دراصل اللہ والے وہ ہوتے جنھیں دیکھ کر اللہ یاد آجائے۔پھر انھیں فقیر کا لیبل لگانے کی ضروت نہیں ہوتی۔
مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے پڑوس کے نادار لوگوں کی امداد کریں تاکہ اس مشکل گھڑی میں ان کی روزی روٹی کا سامان ہو سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں