اندھیرا اُجالا

اور۔۔۔۔ اب بات جاپہنچی!
(رپورٹ/عزیز لاسی)
90 کی دہائی میں PTVپر ایک ڈرامہ سیریل اندھیرا اُجالا مشہور ہوئی جس میں ادکار قوی خان اور عرفان کھوسٹ کا کردار دونوں پولیس آفیسر ہوتے ہیں ایک DSPاور دوسرا حوالدار کا کردار کرتے ہوئے پولیس محکمے کی اچھائی پر کام کرتے ہیں لیکن عہدوں کے درمیان فاصلوں میں عقل کی تفریق کے دلائل دیتے ہیں اسی دہائی کی ایک اور ڈرامہ سیریل دُھواں جسکا ہیر و کسٹم آفیسر عاشر عظیم اپنے ملک میں حق اور سچ کے درمیان لڑائی کرتے ہوئے دلبرداشتہ ہو کر آج بیرون ملک ڈرائیور کی نوکری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرنے پر مجبور دربدر ہے
ان دلائل کا مقصد ہمارے وطن عزیز میں ”اقدار“ کی اہمیت سے شناسائی کو اُجاگر کرنا مقصود ہے خبر آئی ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ کے ان تمام غیر منتخب معاونین کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیکر چلتا کرنے کا حکم دیاہے غور طلب بات یہ ہے کہ بھائی جب صوبے میں منتخب اراکین کی مطلوبہ تعداد مکمل ہے تو پھر غیر منتخب افراد کو بھرتی کرنے کا مقصد کیا رہ جاتا ہے ایک طرف وفاق ہو یا صوبہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اخراجات میں کمی کی گئی ہے اسکی ایک جھلک گزشتہ سال کے اوّائل کے دنوں میں وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں بلوچستان سے جانے والے ایک تربیتی وفد کے ہمراہ PMہاؤس جاکر دیکھاکہ صرف پانی سے توازہ کی گئی البتہ GHQمیں خوب خاطر مدارت کی گئی تھی لیکن بلوچستان جو کہ پہلے سے ہی ایک پسماندہ صوبہ ہے ایک طرف اخراجات میں کمی کی باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب غیر منتخب معاونین کی بھرتیاں آخر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے آج ہی ایک اور خبر آئی ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحب نے اپنے تمام خصوصی معاونین اور وزراء کو مختلف اضلاع کے دورے کرکے کرونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے اور دوسری جانب گزشتہ دنوں جن وزراء کی ناراضگی کے حوالے سے سیاسی ماحول گرم ہو ااس پر غور کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے شاید لگ رہا ہے کہ ایک زمانے میں ربر اسٹیمپ کی جو سیاسی اصطلاح استعمال کی گئی تھی جیسے آج کل چابی والا کھلونا سمجھ کر اس معاملے کو سردخانے کی نذر کردیا گیا ہے لیکن بات کی باز گشت دور دور تک جا پہنچی ہے
بات ہورہی ہے سردخانے کی تو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی کہ کرونا ایمرجنسی کے سبب زندگی میں پہلی بار سرکاری ملازمین لیکن تمام ملازمین نہیں اور صرف ملازمین ہی نہیں بلکہ افسران صرف اپنی تنخواہوں پر گزارہ کریں گے کیونکہ دفتر بند تو کرپشن اور کمیشن دونوں بند۔۔۔! گو کہ یہ پوسٹ کسی نے مزاحیہ طور پر وائرل کی ہے لیکن اسکا حقیقت سے گہرا تعلق بنتا ہے کیونکہ گڈگورننس نو کرپشن کے ٹھوس دعوؤں کے باوجود سرکاری محکموں میں کرپشن اور کمیشن خوری کا نہ رکھنے والا سلسلہ جاری ہے واقعی حالیہ کرونا ایمرجنسی سے ان محکموں کے افسران پریشان ہو نگے کیونکہ انھوں نے اپنی تنخواہ سے زائد جو شاہانہ اخراجات بڑھارکھے ہیں اب انہیں گھروں میں رکھی دولت سے پورا کرنا انکے لیئے کسی ناگہانی آفت سے کم نہ ہو گا
ضلع لسبیلہ میں کرونا وائرس ایمرجنسی لاک ڈاؤن سے متاثرین کی جانب سے امدادی راشن میں غیر منصفانہ تقسیم اور امدادی راشن کی سیاسی مداحوں میں تقسیم کی باتیں دراصل سیاست کی سرکار میں بے جا مداخلت کا نتیجہ ہے اور یہاں پر ہر کام میں بلاوجہ سیاسی مداخلت ہی معاملات کو متنازعہ بنا دیتی ہے گزشتہ روز ایک اسپتال میں خود کا سینٹائزر گیٹ کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے تنصیب کے بعدسوشل میڈیا پر ایک فوٹو وائرل کی گئی ہے جو کہ ان باتوں کی ایک مثال ہے اور اسکا مطلب صاف ظاہر ہے کہ جسطرح علاقے میں ترقیاتی منصوبے بنانے والے محکموں زمینوں کی ہیر پھیر کرنے والے اداروں میں مداخلت اور ٹھیکوں کی بندربانٹ کی جو باتیں گشت کر رہی ہیں وہ بھی سچ ہونگی اور یہ سلسلے صرف آج کے نہیں بلکہ ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور جام صاحب کا یہ بیان حقائق پر مبنی ہے کہ”بلوچستان میں 70سالوں سے مختلف مافیاز کی حکومت تھی“لیکن موجودہ حالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور ماضی میں یہ بھی دیکھا جائے کہ مختلف محکموں میں کمیشن کی شرح فیصد کیاتھی اور آج کیا ہے؟ ماضی قریب کی بات ہے کہ پولیس تھانوں کی ”منتھلی“ ایک SPنے اپنے فرنٹ مین سے کراچی کے جناح اسپتال کے پبلک ٹیلی فون بوتھ کے ایک کونے میں جاکر لی لیکن اسکے بعد رشوت خوری کی دیدہ دلیری دیکھی تو بس توبہ استغفار۔۔۔۔! اب کچھ کھلے عام۔۔۔۔!
کھلے عام آج بھی ان حالات میں بھی دیکھا کہ مستحق خواتین میں امدادی رقم پر کٹوتی کو اپنا حق سمجھ کر لیا جاتا رہا اب شاید سختی کی گئی ہے ان دنوں ملک بھر کی طرح حب میں وزیر اعظم احساس پروگرام کے تحت مستحق اور ضرورت مند خواتین میں رقم کی تقسیم کی جارہی ہے جو کہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن موجودہ کرونا ایمرجنسی میں جسطرح رقم تقسیم کی جارہی ہے اُ س نے کرونا ایمرجنسی لاک ڈاؤن لوگوں کے ہجوم پر پابندی کو باتوں تک محدود کرکے رکھ دیا ہے سیاسی جماعتوں کی ایکشن کمیٹی جس میں دکانداروں تاجروں کی تنظیم بھی شامل ہے نے 14اپریل کے بعد کاروبار کھولنے کی دھمکی دے دی ہے اُنکا موقف ہے کہ اسوقت حب شہر میں لاک ڈاؤن محض فرضی ہے بازاروں میں رش ہے صرف دکانوں کے شٹر بند ہیں ہوٹلوں کے عقبی گیٹ کھلے ہوتے ہیں کراچی سے آنے والے مختلف راستوں سے علاقے میں پہنچ رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں