کرونا وائرس اور حکومت پاکستان

تحریر: صابر بلوچ
اس وقت دنیا ایک مشکل صورت حال کاشکار ہے اور یہ مشکل صورت حال ایک وبا کی صورت میں آیا ہے جسے ہم کرونا وائرس کہتے ہیں۔ یہ وائرس گزشتہ سال چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا تھا اور اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھی ہے۔ اس وائرس نے نہ چین کو جانی نقصان دیا بلکہ اس نے چین کی معشیت پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے،دنیا کے بہت سے ممالک نے چین کے ساتھ اپنے فضائی سفر پر پابندی عائد کی تھی اور چین سے اپنا تجارتی آمد وربط معطل کر دی تھی جس سے چین کی معشیت جس ترقی کی راہ پر گامزن تھی وہ رک گئی اور چین کو اس وبا سے نمٹنے کے لئے ووہان شہر کو مکمل لال ڈاون کرنا پڑا،اور وہاں دس دن کے اندر اندر مریضوں کے لئے ایک ہسپتال تعمیر کیا گیا اور ملک کے بہت سے ڈاکٹروں کو وہاں تعینات کیا گیا جو دن رات مریضوں کا علاج شروع کرتے تھے اور کرونا کے آخری مریض تک چین نے اپنا قومی فرض نبا کر اپنے ملک کو اس وبا سے کافی حدتک کنٹرول کر دیا تھا۔
اس وائرس سے چین میں چار ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے اور لاکھوں کی حساب سے متاثر ہوئے اور اب بھی اس کے اثرات چین میں موجود ہیں۔چین کے بعد یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل گئی اور ایک انتہائی خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے اس وائرس نے نہ صرف چین، امریکہ بلکہ پوری یورپی ممالک فرانس،اسپین،بلجیم،برطانہ،اٹلی،جرمنی اور ایران ایشائی ممالک سمت 210 ملکوں کو لپیٹ میں لے کر اپنی بتاہ کاریاں شروع کی ہیں۔اس وائرس سے ہر روز ایک ہزار کے قریب لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتےہیں۔ اب تک اس کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک اٹلی ہے جہاں روزانہ ایک ہزار کی تعدادمیں لوگ مر رہے ہیں اب تک تقریبآ بیس ہزار لوگ اٹلی میں جاں بخق ہوئے ہیں اور اب یہ وباء سپر پاور امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ شروع شروع میں امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے اپنی قوم کو یہ دلاسہ دیا کہ یہ وائرس ہمارا کچھ نہیں کرسکتا جیسے جیسے اس وائرس کے اثرات مرتب ہونے شروع ہوئے تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوگئے اور دنیا کےدوسرے متاثر ملک امریکہ بن گیا۔
اقوام متحدہ کے وولڈ ہلیتھ آرگنائزیشن نے اس وبا کو ایک انسانی جان لیوا وبا قرار دیا ہے اور متاثرہ ممالک کو امداد دینے کا اعلان کردیا ہےاور آج تک کسی ملک نے اس وبا سے بچنے کے لئے ایسی کو ویکسین نہیں بنائی جو اس کا خاتمہ کر سکیں۔ جن ترقی یافتہ ممالک نے اپنی عوام کو گھروں میں رہنے کی اپیل کی اور تمام کاروباری مراکز کو بند کردیا ، ملک میں لاک ڈاون لگادیا اور عوام کو رلیف دینے کی یقین دہانی کا عمل جاری رکھا گیا۔امریکہ چین کی طرح پاکستان نے بھی ملک بھر میں اس وبا سے بچنے کے لئے لاک ڈاون کا اعلان کردیا جو 24 مارچ سے لے کر 14 اپریل تک تمام کاروباری اور سرکاری ٹرانسپورٹ وغیرہ کو مکمل بند کر دیا گیا ہے اور اپنی عوام کو گھروں میں رہنے کی اپیل کی گئی۔پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس ایران باڈر تفتان سے آئے ہوئے زایرین میں تصدیق کی گئی اور سندھ حکومت نے پہلے پہل صوبے بھر الرٹ ہوکر لاک ڈوان کا اعلان کیا گیا اس کے بعد وفاقی حکومت نے بھی ملک بھر میں لاک ڈوان کا اعلان کر کے پورے ملک کو مکمل سیل کردیا گیا۔وزراعظیم عمران خان صاحب نے قوم کو اس وائرس سے بچنے کے لئے قوم کو یہ حوصلہ فراہم کیا کہ ہم کو گھبرانہ نہیں ہے بلکہ اس کا مقابلہ کرنا ہے آیا ہمارے ملک کے پاس اتنے وسائل ہیں جو چین کی طرح ملک کو اس وائرس سے پاک کرسکے۔ ہمارے ملک کی آدھی آبادی نچلی سطع میں اپنی زندگی بسر کر رہی ہے ہمارے ملک کی آدھی آبادی محنت مزدوری کی ہے جو روزانہ کام پہ جاکر اپنا گزارہ کرتی ہے اور وزراعظم کہتے ہیں ہمیں گھبرانہ نہیں ہے وہ مزدور جو اس کی زور کی کمائی اس کا گھر کا چولہ جلتا ہے وہ اس جان لیوا وبا سے کس طرح مقابلہ کرسکے گا وہ اس سب سے لڑائی گھر کے چولہے سے ہے جو اس کی روزانہ کی لڑائی ہوتی ہے۔ وہ مزدور جو صبح کام کے لئے نکلتا ہے اور شام کو اپنے بچوں کو خالی ہاتھ دیکھاتا ہے اس سے اور لڑائی اور کیا ہوسکتی ہے۔کہتے ہیں کہ ریاست اپنی رعایا کے لئے ماں کا درجہ رکھتی ہے اگر واقعی ریاست اپنی رعایا کے لیے ماں ہے تو پاکستانی عوام کو ریاست اس مشکل کھڑی میں وہ ریلیف دے رہی ہے جو ایک ریاست کا اول فرض بنتا ہے۔آج ہمیں اس مشکل وقت میں وفاقی حکومت سے زیادہ سوشل ادارے نظر آرہے ہیں جو قوم کو اس مشکل وقت میں ساتھ دے رہیں ہے۔ وفاقی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ اگر کسی بھی مزدور کو کام سے فارغ کیا تو حکومت اس کے خلاف کاروائی کرے گی لیکن آج بھی پاکستان کے بہت سے ایسے کمپنیز ہیں جو اپنے مزدروں کو کام سے فارغ کیے گئے ہیں جھنیں اس کی پوری مزدوری بھی فراہم نہیں کی گئی ہے۔ حکومت پاکستان کو اب چاہیے کہ وہ اپنی رعایا کے لئے عملی اقدامات کریں اور ان کے خلاف کاروائی کریں جہنوں نے اس مشکل وقت میں کمپنی میں کام کرنے والے ورکز کو نکال دیا تھا انھیں ان کی نوکری بحال کردے۔اگر اسی طرح پاکستان میں لاک ڈاون جاری رہا تو کرونا وائرس سے زیادہ عوام بھوک سے اپنی جان دھو بیٹھیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں