تمام فریقین افغان امن عملمعاہدے کی پاسداری کریں گے، اشرف غنی

کابلی:افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے تاریخی معاہدے کے حوالے سے کہا ہے کہ تمام فریقین اس معاہدے کی پاسداری کریں گیکابل میں چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ اور دیگر حکام کے ہمرا پریس کانفرنس کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ‘نائن الیون کے سانحے نے ہمیں یکجا ہوئے اور مشترکہ قربانیوں سے باہمی طور پر منسلک ہوئے’۔اشرف غنی نے کہا کہ ‘ہم افغان حکومت اور عالمی برادری طالبان کے ساتھ تنازع کا حل چاہتے ہیں، ہم امن قائم کرنے کے لیے سیاسی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ ہم نے مقابلہ کیا ہے اور ہماری معیشت میں صلاحیت ہے، اسی طرح ہماری ریاست کے پاس بھی صلاحیت ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اتفاق رائے کے لیے جرگہ اور دیگر راستے اپنائے گئے اور ہم ایک اسٹیک ہولڈر سوسائٹی بن گئے، ہمارے نتیجہ خیز گفتگو باہمی رابطوں اور آئین اور آزادی اور قومی شناخت میں بدل گئے’۔افغان صدر نے کہا کہ ‘2018 کی تاریخی جنگ بندی کے دوران ہمارے معاشرے نے شان دار مستقبل کے جانب عملی مظاہرہ کیا اور ہزاروں طالبان جنگجووں کے ساتھ بغیر کسی ناخوش گوار واقعے کے مذاکرات ہوئے’۔افغانستان میں امن کے قیام کے لیے گزشتہ برسوں میں ہونے والی کوششوں کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے علما امن کے چمپیئن ہیں، ہمارے علما نے 2018 کی جنگ بندی کے لیے راستہ بنایا، امن اور جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے فتویٰ جاری کیا اور طالبان نے اس کو تسلیم کیا’۔اشرف غنی نے کہا کہ ‘ہم پرعزم ہیں کہ امن پر قومی اتفاق رائے ہوگی، یہ عزم پانچ سال کی مشاورت، علما، خواتین اور نوجوان کی جانب سے دی گئی امید سے پیدا ہوا ہے، 2019 کا لویہ جرگہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو قومی سطح پر یکجا کیا اور امن کی امید دلائی’۔انہوں نے حاضرین سے درخواست کی کہ افغان جنگ کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے چند لمحے خاموشی بھی اختیار کی جائے۔اشرف غنی نے کہا کہ پاکستان اور دیگر برادر ملکوں کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیئکھتے ہیں جس کے لیے افغانستان کے عوام نے بے پناہ بڑی قربانیاں دی ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاہدہ افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ہونے جارہا ہے اور تمام فریقین امن معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی موجودہ نسل نے آنے والے والے افغان بچوں کے لیے قربانی دی ہے اور دو دہائیوں سے افغانستان کے ایک کروڑ افراد نے نقل مکانی اور دیگر تکلیفیں برداشت کیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں