پرائیویٹ اداروں کی فیسوں کی ادائیگی ممکن بنائیں

تحریر:رمشا کھوسہ
جہاں ہمارے پرائیویٹ اداروں کو ہمیشہ ہی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے وہاں آج ایک بار پھر اس مشکل گھڑی میں نہ تو پرائیویٹ اداروں کو صرف تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ ان سے منہ بھی موڑا جا رہا ہے۔۔
وہی پرائیویٹ ادارے جو اتنی کم فیسوں پر آپ کے بچوں کو معیاری تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ان اداروں نے ہمیشہ والدین کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ رعایت برتی ہے،آپ کے بچوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دور حاضر کی تمام تر سہولیات ان پرائیویٹ اداروں میں ہی دی جاتی ہیں۔مگر آج اس مشکل وقت میں اداروں کو انتظامیہ کی جانب سے کم فیس وصولی یا مکمل طور پر فیسیں نا وصول کرنے کا کہا جا رہا ہے۔،کہیں ان کو ایسے الفاظوں کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے کہ ‘پڑھا تو نہیں رہے مگر فیس کس چیز کی لے رہے ہیں؟’ اور افسوس کے ساتھ بولنے والے وہی لوگ ہیں جو آج آگر کسی بھی مقام پر ہیں تو انہی اداروں انہی اساتذہ کی بدولت ہیں۔پرائیویٹ اداروں کو کاروبار کا نام دینے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ انہی کی محنت کی بدولت آج آپ بیمار ہونے کے بعد طبیب کا رخ کرتے ہیں حصول انصاف کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹاتے ہیں ہر مسئلے مسائل کے حل کی خاطر یہاں جو جو کام کر رہے ہیں سب ہی ان اساتذہ و بدولت ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب جو آج حکومت چلا رہے ہیں آج جن سے آپ لوگوں کی ہزاروں امیدیں وابستہ ہیں یہ آج اس مقام پر پہنچے ہیں تو وہ بھی انہی اداروں اور اساتذہ کی ہی بدولت ہیں۔افسوس آج ہم کس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں؟؟ ہمارے دل میں ذرا بھی احساس نہیں! ہمارے بچوں کا مستقبل سنوارنے والیہمارے استاد, ہمارے بچوں کیلئے بہترین ادارے قائم کرنے والے, معیاری تعلیم دینے والی ہمارے پرائیویٹ اداروں کی انتظامیہ, یہ وہی ہیں جو آپ کے بچے سے لے کر اس کے قلم گم ہوجانے پر بھی جواب دہ ہوتے ہیں جو آپ کے ہر مسئلے مسائل سننے کیلئے ہمیشہ آپ لوگوں کیلئے دستیاب ہوتے ہیں۔ جن کو آپ سے زیادہ آپ کے بچوں کے تعلیم کی فکر ہوتی ہے آج آپ انہی سے سوال کر رہے ہیں کیسی فیس کدھر کی فیس؟؟ بے شک کئی ادارے ایسے ہیں جن کی فیس بہت زیادہ ہے لیکن ان کی فیس بھی ادارے کے اخراجات کہ مطابق ہی ہے کوئی ادارہ بنا کسی جواز کے کبھی فیس زیادہ نہیں لیتا زیادہ فیس لینے والے ٹیچرز کو بھی اتنی ہی تنخواہ دیتے ہیں ساتھ ساتھ اسکول کا ہر نظام بھی ان ہی فیسوں سے چل رہا ہوتا ہے اسکول کی عمارت کا کرایا گیس و بجلی کے بلز، اور تمام اسٹاف کی تنخوائیں بھی ان ہی فیسوں سے ادا کی جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی مسئلہ اگر ان اداروں کی زیادہ فیس لینے کا ہے تو ان اداروں کا کیا جو 1000،1500 میں آپ کے بچے کو اتنی اچھی تعلیم دے رہے ہیں۔اور ساتھ ساتھ اسکول کا پورا نظام بھی چلا رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ پرائیویٹ ادارے ہمیشہ تنقید کی زد میں آخر کیوں؟ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت حالات بہت خراب ہیں لوگوں کے کاروبار مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں..تعلیمی ادارے کورونا وائرس کے پھیلا کو روکنے اور بچوں کے صحت کی بہتری کیلئے حکومت کی جامب سے بند کیے گئے. کیا تعلیمی اداروں کی ان بندش کی زمہ دار پرائیوٹ اسکول انتظامیہ ہے یا پرائیویٹ اسکول اساتذہ…؟اگر نہیں تو پھر کیوں پرائیویٹ اسکول انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے. خدارا اپنی منفی سوچ کو ختم کریں ان حالات میں پرائیویٹ اداروں کے ساتھ تعاون کریں ان کا گھر بھی ان کی اس تنخواہ پر چلتا ہے جو وہ اپنے ہی ادارے سے لیتے ہیں کیا ان کا اتنا بھی حق نہیں اپنے آپ کو وقف کر کے آپ لوگوں کے بچوں کی تعلیم کیلئے پورا ادارہ چلا رہے ہیں. دن دیکھتے ہیں نا رات آپ کے بچوں کیلئے سخت سے سخت محنت کر رہے ہوتے ہیں جو آج بھی آپ لوگوں کے بچوں کی فکر میں ادارے میں بیٹھے ہیں کام کرتے ہیں کچھ تو راتوں کو فکر میں سو نہیں پاتے سوچتے رہتے ہیں کہ ادارے کے کھلنے پر ایسا کیا کیا جائے جس سے ہمارے بچوں کو ان کے والدین کو کسی طرح کی فکر کا سامنا نا کرنا پڑے ایسے حالات میں آپ لوگوں نے ان کو اب اس مشکل میں ڈال دیا ہے کہ یہ سارا نظام کیسے چلائیں ان کا سارا نظام دھرم بھرم ہو چکا ہے ان کی اپنی تنخواہ جن سے ان کا گھر چلتا ہے جن کے گھر کے اگر 4 فرد اپنے اسکول میں کام کر رہے ہوتے ہیں تو ان میں سے اگر دو تنخواہ لے رہے ہوتے ہیں تو دو ایسے ہی اتنی محنت کر رہے ہوتے ہیں مگر یہ کبھی آپ لوگوں سے سوال نہیں کرتے اپنے حق و انصاف کے لیے. ان کو کوئی سرکار ادا نہیں کرہی ہوتی جس سے ان کا نظام چلے یہ سارا کچھ خود کرتے ہیں جن کو سرکار ادا کر رہی ہے سرکاری اداروں میں بند تو وہ بھی ادارے ہیں وہاں بھی اساتذہ کو تنخواہ مل رہی ہے اب بھی ادھر کیوں نہیں بول رہا کوئی؟ کیونکہ وہاں پیسہ سرکار کا جا رہا ہے آپ لوگوں کا نہیں؟؟ بات پرائیویٹ اداروں کی ہو یا سرکاری اساتذہ کی تنخواہ ان کا حق ہے دونوں جگہ پرائیویٹ اور سرکاری۔۔ کیونکہ یہ بھی اپنا گھر اسی تنخواہ پر چلا رہے ہوتے ہیں جب ان کو تنخواہ نہیں ملے گی تو ان کا گھر کیسے چلے گا ان کا چولہا کیسے چلے گا؟ پرائیویٹ اداروں میں اگر بچوں کی فیس نہیں دی جائے گی تو وہ جو غریب مسکین چپراسی وہ غریب کام کرنے والی ماسیاں جو اپنی مجبوری میں اپنا پیٹ پالنے کو آپ لوگوں کے بچوں کے پیشاب و پاخانے اور گندگی کو صاف کرنے کا کام بھی کر رہی ہوتی ہیں اب ان حالات میں آپ لوگ وقت پر فیس ادا نہیں کریں گے تو ان غریب لوگوں کا کیا ہوگا۔۔۔جیسے یہ پرائیویٹ ادارے والے ہر ممکن سے ممکن آسانیاں آپ لوگوں کو دیتے آرہے ہیں جن کے ادارے میں کئی بچے فری میں بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کے والدین فیس ادا نہیں کر سکتے جن کی اتنی گنجائش نہیں یہ ادارے والے ان کے ساتھ بھی تعاون کرتے آرہے ہیں مگر افسوس آج ان کے ان حالات میں ان سے منہ موڑا جا رہا ہے خدارا ہوش کریں آج ہمارے پرائیویٹ ادارے والوں پر مشکل گھڑی ہے قدم بڑھائیں ان کا ساتھ دیں ٹھیک ویسے جیسے یہ ہمیشہ ہم سب کا دیتے آرہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں