عالمی وباء یا عالمی سزا
نعمان بادینی
گزشتہ کئی ہفتوں سے بلکہ دو یا تین مہینوں سے بھی زیادہ ایک خاص موضوع جو اخباروں، سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور ہر مجلس و محفل کی زینت بنی ہوئی ہے۔ جی ہاں میں کورونا وائرس کی بات کررہا ہوں جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لی ہے’ آۓ روز ہر کوئی اسکی وجود کا ذکر اپنی سوچ اور مشاہدے کے موافق کرتا ہے اور ایک ہی بات زدزبان ہے کہ اب یہ تمام دنیا کو بشمول ہم کو بھی متاثر کرے گا اور دنیا کی ابد تک ہمارے نسل نو کا نام تک نہیں رہنے والا۔
کوئی اسے ماضی کے پردے میں ٹٹولنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی اسے ایک منظم سازش اور منصوبہ کے تحت ففتھ جنریشن وار کی ایک قسم کہتا ہے تو کوئی اسے proxy بیالوجیکل وار کے نام سے ٹیگ کرتا ہے جبکہ کچھ لوگ اسے امریکا یا چین کے پلان کے تحت مینو فیکچرڈ بیماری تصور کرتے ہیں اگرچہ سب سے زیادہ متاثر بھی یہی دو ممالک ہیں جیسےکہ تاریخ کی روشنی کو پیش نظر رکھ کر اگر بات کی جائے تو حالیہ دنوں میں ایک کتاب منظرِ عام پر آئی جس کے لکار ڈین کونٹز ہے اور اپنی ایک کتاب لکتے ہے جس کا نام دی آیز اف ڈارکنیس یعنی طاریقی کے نظر یا چشم عالمی وباء یا عالمی سزا
کوئی اسے قدمی تاریخ سے ٹٹولنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی اسے ایک منصوبہ کے تہت ففتھ جنریشن وار کی ایک قسم کہتا ہے تو کوئی اسے بیالوجیکل وار کے نام سے ترتیب دیتا ہے ۔اور کچھ ذہین اخلاقی یا ذہنی طور پر معذور اسے امریکاہی یا چینی پلان کے تحیت مینو فیکچر بیماری تسور کرتے ہی ںمگر دوسرے پہلو سے دیکھے تو سب سے زیادہ متاثر بھی یہی ممالک ہے ۔ جیسےکہ تواریخ کے روشنآیی سے اگر بات کی جائے تو آہلیہ دنوں میں ایک کتاب منظر ء عام پر آئی جس کی مصنف ڈین کونٹز ہے جس کا نام دی آیز اف ڈارکنیس یعنی طاریقی کے نظر یا چشم 1981 میں چھاپہ گیا۔ وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ 2020 میں ووہان 400 ایک وباء پھیلےگا پوری دنیا کو آڑے میں لے آئیگا اور پھر ختم ہوجائے گا اور پھر دس سال بعد واپس آئےگا اور پھر مکمل ختم ہو جاۓ گا۔
جس سے کئی افراد متفق ہیں کہ یہ امریکا اور چین کے آپس میں دشمنی اور کھینچاتانی کی وجہ سے واقع ہوگا مگر کچھ مذہبی حلقے کے لوگ اسے خدا کی ناراضگی اور قہر و عذاب قرار دیتے ہیں
لیکن آئیے کورونا سے پہلے دنیا میں ایک نظر دوڑاتے ہیں، ٹھہرئیے میں آپ کو زیادہ دور نہیں بلکہ آپ کو اپنا آنکھوں دیکھا حال سوچنے اور اس کا اظہار کرنے کا موقع دیتا ہوں۔
میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ سوچنے سے پہلے وہ تمام روایتی باتیں کچھ دیر کے لئیے بالاۓ طاق رکھ کر رہیں
آغاز کرتے ہیں 9/11 سے جس کے بعد امریکا نے ایک خونی کھیل افغانستان میں شروع کی اور اب تک اسکے اثرات ہیں۔ برما میں انسانوں خصوصاً مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا اور ایک لحاظ سے ان کی نسل کشی کی گئی۔
آگر رخ کریں عرب ممالک کی تو وہاں بھی حالت کچھ مختلف نہیں ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں جو مظالم ڈھاۓ جا رہے ہیں ان کی جتنی الفاظ میں مذمت کی جائے کم ہے۔بلوچستان کی ابتر صورتحال جاری ہے
۔ پھر مجھے ان حالات میں ایک شعر یاد آتی ہے۔ بقول شاعر
بات تو سچ ہے
مگر بات ہے رسوائی کی
انتقام کی زد میں یہ ظالم تمام مظالم کی حدیں پار کر چکا ہے۔ پتا نہیں حال اور مستقبل میں یہ طاغوتی قوتیں کیا کیا کرینگے اور دنیا کو کب تباہی و نیستی کی دھانے پہ پہنچا دینگے۔ اس لئے، یہ ضروری ہے کہ حق کو جاننے کیلئے آنکھ کان کھول کر رکھیں اور ہر phenomenon کو سمجھنے کی انتھک کوشش کریں.