ذمہ دار آپ، میں اور سماج

تحریر: نعیم قذافی
جب کوئی غریب یا یتیم لڑکا کسی اچانک روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے شدید گھائل ہو کر بےسُدھ گر جاتا ہے اور زخموں سے چکنا چور ہو کر موت کے منہ تک پہنچ جاتا ہے تو آپ اور میں اسے اس خوف سے نہیں اٹھاتے کہ کہیں پولیس تمہیں یا مجھے مجرم سمجھ کر نہ پکڑیں۔ مزید براں، ایک جانی یا انجانی خوف کی جھکڑ میں میں اور آپ بس تماشائی بن جاتے ہیں اور خاص کر پولیس کے تفتیش اور ناروائی سے خوف کھاتے ہیں حالانکہ اس وقت کا خوف فضول ہے۔ اس لئے، پولیس کو آنے دو، پولیس کو اپنی کاروائی کرنے دو لیکن خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ کی خوف کی وجہ سے وہ زخمی بچہ پولیس کے پہنچ جانے سے قبل زندگی اور موت کی جنگ لڑتا ہے۔ اسے درد اور تکلیف کی حالت میں نہیں چھوڑنا چاہیے۔
تاہم بدقسمتی سے، یہاں روایت اور کلچر قدرے متضاد نوعیت کے ہیں لوگ ایکسیڈنٹ کے وقت باتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا، کس نے کیا اور کب ہوا یا کچھ احمق اپنے سیل فونز نکال کر ویڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں اگرچہ وہ بچہ زندگی اور موت کی حالتِ جنگ میں ہے اور یہ بھی کہتے رہتے ہیں کیا یہ بچہ اکیلا ہے، کیا اس کا کوئی بھائی، رشتہ دار یا ساتھی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اس کا بھائی بھی ہے، اس کے ہمراہ بھی ہے، اس کا ساتھی بھی اس کے ہمراہ ہیں۔ تو پھر وہ کون ہیں؟ میں اور آپ ہیں، اس کے بھائی بھی، ساتھی بھی۔ وہ لوگ بھی اس کے بھائی ہیں، ساتھی ہیں جو اس کے اردگرد جمع ہیں۔
جب بسا اوقات ایکسیڈنٹ کے زد میں آ کر زخمی لوگوں کو زمین پر بے بس اور بےسُدھ دیکھتا ہوں تو سوچ میں پڑھ جاتا ہوں کہ کیا وہ اشرف المخلوقات ہم ہیں جس کی تعریف رب العالمین نے بارہا کیا ہے؛ ہم کیسے انسان ہیں، ہم تو ایک عام جانور سے بھی بدتر ہیں، ہم تو طبعیت میں وحشی ہیں، ہم تو سب کچھ سے مالامال ہو کر بھی کچھ نہیں ہیں؛ یقین مانو ہم تہذیب سے محروم انسان ہیں، انسانیت کی اعلٰی صفات سے محروم انسان ہیں. محروم والا انسان دراصل خدا سے محروم ہوتا ہے؛ خدا کی رضامندی سے محروم ہوتا ہے، اس کے کام آنے سے محروم ہوتا ہے، اس کے پیارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معقول طریق پر گامزن ہونے سے محروم ہوتا ہے۔
وہ قریب المرگ بچہ جو زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے موت کی آغوش میں جا کر ابدی نیند سو جاتا ہے۔ اس کی موت کا ذمہ دار میں، آپ اور سماج ہیں اس لئے کہ میری آپ کی اور سماج کی لاپرواہی سے وہ موت کی منہ میں چلا گیا۔ وہ شاید بچ جاتا، اسے نئی زندگی ملتی، اسے اگلی صبح کی سورج کی کرنیں زمین پر پڑتے اور دنیا میں پھیلی روشنی دیکھنے کا موقع مل جاتا اگر میں، آپ اور سماج پولیس کی خوف، اپنی لاپروائی و بے حسی کا مظاہرہ نہ کرتے۔
ایک معاشرہ اس وقت ترقی، استحکام اور فلاح کی طرف رخ کرےگا جب ہر فرد ایک زمہ دار شہری یا رکن کہ اپنی فطری و قانونی اور اخلاقی زمہ داریوں سے آشنا ہو اور پھر ان کے علم و احساس کے تحت انھیں پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہمہ وقت کوشاں رہیں اس لئے یہ سوچ کر ہمیں اپنی اخلاقی زمہ داریوں سے منہ نہیں پھیرنا چائیے کہ یہ کام یا زمہ داری صرف پولیس والوں کی ہے یا باقی اداروں کی بلکہ سماج میں ایسے کاموں میں بطور ایک زمہ دار رکن یا حصہ کہ مجھے، آپ کو ہر وقت پیش پیش رہنا چائیے اور انھیں سر انجام دینا چاہیے تاکہ سماج میں اخلاقی زمہ داریاں یا فرائض تکمیل پذیر ہوسکیں اور معاشرہ اپنی کامل صحت اور معیار پا سکے.

اپنا تبصرہ بھیجیں