قمبر ساڈا بھائی

تحریر:عزیز لاسی
بات کی جائے بلوچستا ن کیلئے 10ویں NFCایورڈ کے لئے غیر سرکاری رکن کی نامزدگی یاپھر لیڈا کے لیگل سکیشن کے ہیڈ کی بھرتی کے حوالے سے۔۔۔! ایک طرف ہم بات کرتے ہیں اپنے حقوق کی اپنے وسائل پر دستر س کی پچھلی 70سالہ حکومتوں کو مافیاز گردانتنے کی جمہوریت اور گڈ گورننس کی اور دوسری جانب ”ہو ننڑے خبر آئی ہے قمبر ساڈابھائی ہے“ کی مثل کے مصدائق صرف گفتار کے غازی کہنا کچھ کرنا اور۔۔۔!
خیر اس حوالے سے کسی پر کوئی زور زبردستی تو نہیں اور نہ ہی ہمیں کسی کے اختیار اور کردار پر اعتراض ہے کیونکہ اعتراض کا حق بھی اخبارات کو سرکاری اشتہارات کو ہتھیار کے طور پر تقسیم کے فارمولے پر سلب کیا جارہاہے لیکن کیا بلوچستان کے کسی بھی آدمی کو اتنا قابل سمجھا نہ کیا گیا کہ 10ویں NFCایوارڈ کیلئے کراچی سے تعلق رکھنے والے جاوید جبار کو چنا گیا اور لیڈا کے لیگل سکیشن کے ہیڈ کیلئے اندرون سندھ سے بھرتے کی گئی تو پھر وزیر اعظم عمران خان نے ریکوڈک کے ذخائر فروخت کر کے ملک کے قرضے اُتانے کی جو بات کہی تھی اسکا دفاع کرنے کا کسطرح یقین کیا جاسکتا ہے بہر حال یہ سیاسی شطرنج کے کھیل ہیں لیکن اس کیلئے اپنے وسائل اور حقوق کی سودے بازی بھی نیک شگون ہرگز نہیں
اسی وجہ سے مثال دی جاتی ہے کہ دوسیاسی مخالفین کے کارکن اپنے اپنے لیڈر کے دفاع میں لڑ جھگڑ رہے تھے کہ ان دونوں میں صلح ہو گئی تو ایک آدمی نے آکر خبردی کہ ”ہونڑے خبر آئی ہے کہ جی قمبر ساڈا بھائی ہے،یعنی وہ آپس میں ایک ہوگئے ہیں پھر ہم آپس میں کیوں جھگڑرہے ہیں یہ بات تو 25جولائی 2018؁ء کے بعد ہی ثابت ہوگئی تھی کہ جاتی اُمرہ،بنی گالہ،بلاول ہاؤس رتوڈیرو گھڑی خدابخش کی یاترایوں سے ناطہ توڑ نے والوں نے محض حکومت کے حصول کیلئے بنی گالہ جانے کی ٹھان لی اقتدار اور اختیار کے درمیان فرق کو بھی فراموش کردیا گیا
ایک طرف ملک بھر اور بلوچستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی تباہ کاریاں زوروں پر ہیں جس پر حکومت نے اب سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ٹھان لی ہے اور لوگوں پر لازم قرار دیاہے کہ اگر وہ کسی وجہ سے گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو اپنے منہ اورناک کو ڈانپنے کیلئے چادر،مفلر اور ماسک کا استعمال کریں ورنہ کاروائی ہوگی اس طرح سے خبر آئی ہے کہ کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں ملاقاتوں کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے گو کہ اس فیصلے پر کرونا سے قبل کا اطلاق ہے لیکن اب باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے
کوئٹہ کے ایوان اقتدار میں حالیہ دنوں حکومت کے اسپیشل اسسٹنٹس کو ہائی کورٹ کے حکم کے تحت فارغ کرنے پر بھی معاملات زیر غور ہیں اور اسپیشل اسسٹنٹس کے مستقبل پر حکومت کی قانونی ٹیم سے مشاورت کا عمل جاری ہے لیکن کرونا وائرس کے حوالے سے صوبائی حکومت نے فوکل پرسن جو نہ ماہر طب ہیں اورنہ ہی منتخب عوامی نمائندے ہیں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی سرکاری پروٹوکول میں آکر رات کے اندھیرے میں حب اسپتال میں خود کار سینٹا ئزر گیٹ کا معائنہ کیا
کرونا وائرس ہے کہ جان چھوڑنے کو تیار نہیں کہ رمضان المبارک بھی آپہنچا ہے اور رمضان المبارک میں مساجد میں نماز تراویح کے اجتماعات کے بارے میں بھی علماء کرام سے براہ راست وزیر اعظم نے خود ملاقات کیلئے اپنی ٹیم سے مشاورت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس بارے میں صدرمملکت نے گزشتہ روز ٹیلی وژن پر طے شدہ SPOکے 20نکات پڑھ کر قوم کو سُنائے اور ان پر سختی سے عمل کرنے کی اپیل کی لہٰذا عوام الناس سے اب بھی درخواست یہی ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے حکومت اور ماہرین طب کے احکامات اور مشروں پر من وعن عملدرآمد کو یقینی بناکر کرونا کی مصیبت سے جلد از جلد چھٹکارہ پانے کی کوشش کریں کیونکہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح اب بلوچستان کے بعض علاقوں میں مقامی سطح پر بھی اسکے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی جارہی ہے جو کہ کافی خطرناک ہے اس وائرس پر قابو پانے کیلئے جس قدر احتیاط ہوسکے برتا جائے تاکہ اس وقت جو حالات چل رہے ہیں اُنہیں جلد معمول پر لانا ممکن ہوسکے کاروبار بحال ہو،روزگار کے دروازے کھل سکیں اور سب سے بڑا نقصان ملکی م معیشت کا جو ہو رہا وہ معمول پر آسکے
حکومت نے کرونا کے حوالے سے ملک میں ہائی الرٹ جاری کر رکھا ہے اور تمام اداروں میں ایمرجنسی کا نفاذ ہے لیکن حب شہر میں Kالیکٹرک کی من مانیاں اب بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی رات ہوتے ہی شہر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے بازار مارکیٹ دکانیں بند ہیں لیکن اسٹریٹ کرمنلز آزاد گھوم پھر رہے ہیں اور وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر وارداتیں کر رہے ہیں محکمہ پولیس نے اسٹریٹ کرائمزپر قابو پانے کیلئے حب میں موٹر سائیکل سوار درجنوں جوانوں پر مشتمل ایگل اسکواڈ کو شہر میں اُتارا ہے لیکن وہ بھی حب اور کراچی کو ملانے والے کچے راستوں پر ہونے والی ممنوعہ اشیاء کی غیر قانونی ترسیل اور دیگر مال کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کی سہولت کاری میں مصروف ہیں
ایک خبر ہے کہ حکومت بلوچستان نے سوشل میڈیا پر کرونا لاک ڈاؤن متاثرین کی مدد کیلئے 6ارب روپے کی امداد کے اجراء کی تردید کرتے ہوئے امدادی رقم کا حجم 76کروڑ 50لاکھ روپے بتایا ہے لیکن تقسیم کے بارے میں جو پروپیگنڈہ کیا جارہاہے اس پر لب کشائی نہیں کی گئی کیونکہ یہ بات ہر زد زبان عام ہے کہ امدادی راشن تقسیم غیر منصفانہ کی گئی ہے اور راشن کی تقسیم سے غریب مستحق بے خبر رہے گوکہ اس میں سو فیصد تو حقیقت نہیں ہوگی پھر بھی حقائق جاننے ضروری ہیں
حکومت نے صوبے میں PSDPکے رکھے ہوئے منصوبوں پر کام شروع کرانے کا عندیہ دیکر خوشخبری دی ہے کہ اس سے نہ صرف ادھورے کام مقررہ معیاد میں مکمل کرکے فنڈز کو لیپس ہونے سے بچایا جاسکے گا بلکہ محنت کش طبقہ جو کہ کرونا لاک ڈاؤن کے سبب بیروزگار ہوا ہے واپس اپنے روزگار سے لگ جائیں گے اور ترقی کا پہیہ بھی چل پڑے گا وفاق نے ملک میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف جو فیصلہ کیا ہے وہ حوصلہ مند ہے کیونکہ ذخیرہ اندوز ہی وہ طبقہ ہے جسکے ہاتھ میں مہنگائی کے جن کی بوتل ہے لیکن اس قانون کے ثمرات عوام تک اُسوقت پہنچنے کے امکامات ہیں کہ اس پر بلاامتیاز عملدرآمد کیا جائے اور امید ہے کہ جسطرح سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے خلوص پر جس اعتماد کا اظہار کیاہے وزیر اعظم عمران خان اس پر پورا اُترنے کی کوشش کرینگے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسے عبدالستار ایدھی (مرحوم) کے صاحبزادے وزیر اعظم کو کرونا فنڈز میں اپنے ایدھی ٹرسٹ کی جانب سے ایک کروڑ روپے کے عطیہ کا چیک دینے گئے تو وزیر اعظم صاحب نے اُنہیں پہچانا ہی نہیں شاید وہ پاکستانی قوم کے ایک عظیم سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی کی شخصیت اور انکی خدمات سے لاعلم ہیں یا پھر بھولنے کی عادت ہے فیصل ایدھی بھی اپنے والد صاحب کی طرح درویش ٹائپ کے آدمی ہیں وہ بھی اگر دیگر سیٹھوں کی طرح سوٹ بوٹ میں جاتے تو شاید توجہ کا مرکز بنتے بہرحال کرونا سے جان چھڑانے کیلئے حکومت اور عوام دونوں کی کوششیں باور آور ثابت ہوسکتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں