نیلام گھر اپریل 20, 2020اپریل 20, 2020 0 تبصرے انور ساجدی پالیسی صاف ظاہر ہے کہ زیادہ کرونا زیادہ امداد زیادہ مریض زیادہ پیسہ اسی لئے تووزیراعظم نے خدا کا شکریہ ادا کیا ہے کہ25مئی تک مریضوں کی تعداد انشاء اللہ15ہزار ہوجائے گی حکومت نے اپنی پالیسی کے عین مطابق مساجد اور امام بارگاہیں کھولنے نماز تروایح کی عام اجازت دیدی ہے علماء صاحبان بھی مصرہیں کہ وہ ہرقیمت پرباجماعت نمازوں کااہتمام کریں گے انکے رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پکے سچے مسلمان تو صرف پاکستان میں ہیں باقی دنیا کے ایک ارب مسلمان صرف نام کے مسلمان ہیں ہمارے علماء پر اس بات کاکوئی اثرنہیں ہوا کہ خانہ کعبہ مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ مسلسل بند ہیں سعودی عرب امارات اور دیگرممالک میں مسلسل کرفیونافذ ہے اصل میں ہمارے علماء کی ضد کی وجہ حکومت ہے اگر حکومت علماء کیلئے بھی ایمرجنسی مالیاتی پیکیج کااعلان کرتی تو وہ کرونا پھیلانے پرمصر نہ ہوتے کوئی مانے نہ مانے کہ کرونا ایران شام اورعراق سے زائرین کے ذریعے آیا اور یہ دنیابھرسے آنے والے تبلیغی حضرات کی وجہ سے پھیلا لیکن حکومت بھی مجبوری سے خاموش ہے اور علماء ایک وبا کے دوران احتیاط کی بجائے اسے مزید پھیلانے پرتلے ہوئے ہیں موجودہ حکومت اور بیشتر علماء کا گٹھ جوڑ صاف ظاہر ہے ایک مولانا فضل الرحمن کو چھوڑ کر باقی تمام علماء عمران خان کے ساتھ ہیں۔طارق جمیل کے بعد مفتی نعیم نے بھی حکومت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے ہیں خود کرونا کاشکار ہوکر صحتیابی کے بعد مفتی صاحب کو یقین کامل ہے کہ اتنی تعریفوں کے بعدوزیراعظم انکے عظیم دینی مدرسہ کی مالی مدد ضرور کریں گے انہیں معلوم ہے کہ صوبہ پشتونخوا کی حکومت نے وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر مولانا سمیع الحق کے مدرسہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو30کروڑ روپے کی گرانٹ دی تھی مفتی نعیم کی جامعہ بھی اکوڑہ خٹک کے مدرسہ سے کم نہیں بلکہ اس میں غیرملکی طلباء کی بڑی تعداد شامل ہے مفتی صاحب کو میں نے پہلی بار امریکی سفارت خانہ کی ایک تقریب میں دیکھا تھا سنا ہے کہ انہیں ہرملک کا سفارت خانہ مدعو کرتا ہے اگر یہود ونصاریٰ سے کوئی مالی کمک مل جائے تو مفتی صاحب نہیں ٹھکراتے کیونکہ یہود وہنود خود قابل قبول نہیں لیکن ان کا ڈالر تو سب کا پسندیدہ ہے افغان جنگوں کے دوران ہمارے جہادی علماء نے ڈالر کے ساتھ جو الفت دکھائی اس پر ہزاروں کتابیں شائع ہوچکی ہیں بلکہ سوویت یونین کیخلاف جنگ میں خود افغانستان تاراج ہوگیا لیکن ہمارے جہادی طبقہ کامعیار زندگی بلند ہوکر کم بخت کافروں کے برابر پہنچ گیا پہلے یہ لوگ کچے مکانوں اور حجروں میں رہتے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں پہنچ گئے ہرشہر کی ڈیفنس سوسائٹی اور اشرافیہ کے علاقوں میں انکے دیدہ زیب بنگلے،ولاز اور فارم ہاؤسز انکے اونچے معیارزندگی کی گواہی دے رہے ہیں برادرم طلحہ محمود کے نصف درجن فارم ہاؤسز اور لگژری رہائش گاہیں مخالفین کیلئے سوہان روح کی حیثیت رکھتے ہیں۔اسلام آباد میں ان کا فارم ہاؤس سب سے بڑھ کرہے انہیں شاباش ہے کہ انہوں نے یہ فارم ہاؤس مولاناصاحب کے مہمان خانہ کے طور پروقف کردیا ہے انکے علاوہ کئی دیگراکابرین بھی اسی طرح کی پرلطف دنیاوی زندگی گزاررہے ہیں آخرت تو انکی ہے شاندار مولاناطارق جمیل اور مفتی نعیم تو پراڈو سے کم گاڑی میں سفر کرتے نہیں ہیں یہ جیدعالم دوسروں کو سادہ زندگی کا روزانہ درس دیتے ہیں اور اس عارضی دنیا کی بجائے آخرت کی فکر کرنے پر زور دیتے ہیں۔مولانا محمدعبداللہ درخواستی صحیح معنوں میں ایک درویش صفت انسان تھے مولانا مفتی محمود نے انہیں جمعیت کاسرپرست اعلیٰ مقرر کیا تھا لیکن وہ سیاست سے دوررہتے تھے اور درس وتدریس میں مصروف رہتے تھے چند سال قبل انکے ایک صاحبزادہ سے ملاقات ہوئی سبحان اللہ اعلیٰ ترین لباس بہترین سواری مہنگاترین پرفیوم لگتا تھا کہ انہوں نے اپنے والد محترم سے کچھ نہیں سیکھا تھا اگرچہ جماعت اسلامی ایک دینی جماعت ہے لیکن اسکے بیشتررہنماروایتی مولوی نہیں ہیں اگرچہ ہمارا ان سے اذلی نظریاتی اختلاف ہے لیکن یہ سارے رہنمانہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں۔بس ایک مرتبہ عمران خان کے ساتھ پشتونخوا حکومت میں شامل ہوکر انہوں نے اپنی نیک نامی پرداغ لگوادیا ورنہ وہ عام طور پر کرپشن کے قریب نہیں ہیں اسی طرح مولانا شاہ احمد نورانی اپنے عہد کے سب سے بڑی دینی اور سیاسی لیڈر تھے لیکن زندگی کابیشترحصہ میمن مسجد صدر کے پیش امام کیلئے مختص دوکمروں کے فلیٹ میں گزاری آخری عمر میں اویس نے بہت کوشش کرکے کلفٹن کے امیر خسروپارک کے قریب ایک مکان لیا وہ بھی صرف تین سوگز کا حالانکہ نورنی میاں چاہتے تو کیاکچھ حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ دراصل افغان جہاد نے ڈالروں کی جوبارش کردی اس نے ہمارے علماء کی سمت تبدیلی کردی جہاد ختم ہونے کے بعد بھی یہ لوگ ڈالروں کی جستجو میں سرگرداں رہے اور بالآخر بیرون ملک سے چندوں،عطیات اور نوازشات کاراستہ ڈھونڈ لیا اپنے علامہ حضرت طاہر القادری کودیکھئے کینیڈا میں شاہانہ زندگی گزاررہے ہیں آمدنی ماشاء اللہ اربوں میں ہے کوئی وقت تھا جب وہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے اپنے مکان اور مدرسہ پرنازاں تھے ایک وقت یہ ہے کہ لاہور آنا ترک کردیا ہے وہ کینیڈا میں بین المذاہب ہم آہنگی پرکتابیں لکھ کر مالامال ہوگئے ہیں۔مریدین کا چندہ الگ چیلے چانٹے بھی بہت آمدنی ڈالروں میں ہے۔ بلوچستان کے توعلماء بھی یہاں کے لوگوں کی طرح غریب ہیں انکے مدارس بس گزارہ لائق ہیں امریکی جنگ کے دوران ڈالروں کی جو برسات ہوئی وہ بھی لک پاس سے آگے نہیں گئی بس بھائی غفورحیدری نے کوہنگ میں جو مدرسہ بنایا وہ حکومتوں کی مدد سے ابھی تک چل رہا ہے لیکن لگتا ہے کہ اگرعمران خان نے مدت پوری کرلی تو اس مدرسے کاچلنا بھی مشکل ہوجائے گا خدا کرے کہ کوئی اور سبیل نکل آئے اور یہ کوہنگ کے تاریخی مقام کی لاج رکھنے میں کامیاب ہوجائیں۔ ہمارے علماء وزیراعظم عمران خان کواپنے دل کے قریب اس لئے سمجھتے ہیں کہ وہ افغان خانہ جنگی اور فاٹا میں لڑائی کے دوران مسلسل طالبان کی حمایت کرتے تھے زمانہ کرکٹ میں انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں شرعی قوانین اور قبائلی جرگوں کی حمایت کی تھی خیر سے انہوں نے اپنی یہ کتاب اب موقوف یاترک کردیا ہے اور اسکی جگہ اپنے نظریات کی تبدیلی کو”میراپاکستان“ کاعنوان دے کر نئی کتاب لکھی ہے اس کے باوجود کہ عمران خان نے یہودی خاتون سے شادی کی انکے دونوں بیٹے ماں کے پاس لندن میں ہیں اور اسکے 10ارب پاؤنڈ ترکہ کے وارث ہیں انکی صاحبزادی بھی بھائیوں کے پاس رہائش پذیر ہے لیکن علماء نے (مولانافضل الرحمن کو چھوڑ کر)انکے اس طرز عمل پرکبھی اعتراض نہیں کیا عمران خان مسلسل بلاول پرتنقید کرتے رہے ہیں کہ انہیں اردو بولانا نہیں آتا جیسے انکے صاحبزادے لندن میں فرفر اردو بولتے ہوں مولانا طارق جمیل کے بقول وہ عمران خان کی اس لئے حمایت کرتے ہیں کہ وہ ریاست مدینہ قائم کرنے کی بات کررہے ہیں حالانکہ ابھی تک اس ریاست کی پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی گئی انہوں نے کسی بھی قیمت پر حکومت حاصل کرنا تھا جو کرلیا اب انکے دامن میں کوئی کارکردگی نہیں صرف پروپیگنڈے کے زور پر اپنی حکومت چلارہے ہیں ان کا سوشل میڈیا ونگ بہت مضبوط ہے اوروہ پارٹی چلانے کی بجائے اسی ونگ پرزیادہ سرمایہ کاری کررہے ہیں ایک دن آئیگا جب سوشل میڈیا ونگ اور محکمہ اطلاعات کے اربوں روپے کے اسکینڈل منظرعام پرآئیں گے کیونکہ اطلاعات کی معاون خصوصی آپاں فردوس نے پی آئی ڈی کو نیلام گھر بنادیا ہے سینکڑوں ڈمی اخبارات کواشتہارات اسٹیٹ بینک کے ٹی بلز کی طرح جاری کئے جارہے ہیں جبکہ معیاری اور پڑھے جانے والے اخبارات کوجان بوجھ کرمحروم رکھا جارہا ہے گزشتہ سال سی پی این ای کے صدر عارف نظامی نے باقاعدہ ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ پی آئی ڈی میں لین دین کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتاجیسے کہ آپاں ہیں انکی اہلیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے ایسی بات کہہ دی جوشائع کرنے کے قابل بھی نہیں ہے چونکہ یہ ٹی وی پر بھی چلااورسوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوا لہذا اسے دہرانے میں کوئی حرج نہیں انہوں نے کہاکہ کرونا وائرس صرف منہ کے راستے اندرنہیں جاسکتا بلکہ نیچے سے بھی داخل ہوسکتا ہے آپاں کووزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے نااہلی اور بدانتظامی پروزارت سے برطرف کردیا تھا انکے رونے کی وڈیو آج بھی موجودہے۔کرونا کے بحران نے چونکہ اس حکومت کی اہلیت کو بے نقاب کردیا ہے اس لئے وہ سیاسی شوشے چھوڑ کر لوگوں کادھیان ادھرادھر کرنے کی کوشش کررہی ہے پہلے جہانگیر ترین کیخلاف چینی اسکینڈل کی بات اچھالی گئی لیکن کارروائی کوئی نہیں ہوئی اسی طرح خسروبختیار کوآٹا بحران کاذمہ دار قرار دیا گیا لیکن بدلے میں بڑی وزارت دی گئی اب انکی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی لوٹ مار کی رپورٹ کا چرچا کیاجارہا ہے ہوسکتا ہے کہ جب کرونا اورمعیشت دونوں مزید خراب ہوجائیں تو شوگرمافیا کوسبسڈی کے معاملہ میں عثمان بزدار راگیدا جاسکتا ہے کیونکہ نیب زدہ علیم خان دوبارہ سینئر وزیر ہوگئے ہیں اور وہ عثمان بزدار کی جگہ بھی لے سکتے ہیں علیم خان کافی بڑے غنی ہیں وہ لاہور سے بھی بڑے مکان کالندن میں بندوبست کرسکتے ہیں سب دنیا بند ہے لیکن سی ڈی اے کی زمین پر ان کا پارک ویو کاپروجیکٹ چل رہاہے۔عثمان بزدار تومسکین اور شریف آدمی ہے وہ لاہوری ٹھگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا چونکہ اب انکی ضرورت باقی نہیں رہی لہٰذا علیم خان ایمانداری کی مشین میں دھل کرآسانی کے ساتھ وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں اور حکومت عوام کی توجہ ادھر مبذول کروانے میں بھی کامیاب رہے گی۔ ٭٭٭ Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)