زکوٰۃ کا پیسہ بیرون ملک دوروں کے لیے نہیں ہوتا، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کوٰۃکے پیسے سے دفتری امور نہیں چلائے جا سکتے، زکوٰۃ کا پیسہ بیرون ملک دوروں کے لیے نہیں ہوتا، افسران کی تنخواہیں بھی زکوٰۃ فنڈ سے دی جاتی ہیں، زکوٰۃ فنڈ کا سارا پیسہ ایسے ہی خرچ کرنا ہے تو کیا فائدہ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مزارات کا پیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کے لیے ہوتا ہے، مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والے ہیں، سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے۔ پیر کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ محکمہ زکوٰۃ نے کوئی معلومات نہیں دیں، جواب میں صرف قانون بتایا گیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل خالد خان نے کہا کہ وفاقی حکومت زکوۃ فنڈ صوبوں کو دیتی ہے۔ صوبائی حکومتیں زکوۃ مستحقین تک نہیں پہنچاتیں، اس فنڈ کا بڑا حصہ تو انتظامی اخراجات پر لگ جاتا ہے۔اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زکوٰۃکے پیسے سے دفتری امور نہیں چلائے جا سکتے، زکوٰۃ کا پیسہ بیرون ملک دوروں کے لیے نہیں ہوتا، افسران کی تنخواہیں بھی زکوٰۃ فنڈ سے دی جاتی ہیں، زکوٰۃ فنڈ کا سارا پیسہ ایسے ہی خرچ کرنا ہے تو کیا فائدہ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مزارات کا پیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کے لیے ہوتا ہے، مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والے ہیں، سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے، مزارات کے پیسے سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں، ڈی جی بیت المال بھی زکوٰۃفنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں، بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے، سندھ کی حکومت ہو یا کسی دوسری صوبے کی، مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں شفافیت نہیں، صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی لہکم تفصیل نہیں دی گئی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوٰۃجمع کی،مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے اس کا کچھ نہیں بتایا گیا، وفاقی حکومت کو زکوٰۃ فنڈ کا آڈٹ کروانا چاہیے، زکوٰ? فنڈ کے آڈٹ سے صوبائی خودمختاری متاثر نہیں ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں