عوامی نمائندوں۔۔۔!!!ان کی فریاد سنو…!!!

تحریر: پروفیسرغلام دستگیرصابر
میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب سے آواز آئی صابرصاحب خدا کے لئے کچھ ہماری فریاد کو عوامی نمائندوں تک پہنچاو۔
میں نے پوچھاجی کون؟
دوسری جانب گلوگیر اورلزرتی آواز میں اس نے اپنانام بتایااور بولنے لگا۔
سرمیں بی اے پاس ہوں۔ کئی سالوں سے نوکری کے لئے درخواستیں اورانٹرویو دے دے کر تھک گیا۔ اچانک لیویز کی پوسٹیں آگئیں۔
نہ سفارش نہ پیسہ بس اللہ کے آسرے پردرخواست جمع کی۔ ٹیسٹ دوڑ وغیرہ کے بعد اچانک لسٹ میں میرانام آگیا۔
مجھے یقین نہیں تھا کہ مجھ غریب کو بھی نوکری مل جائیگ۔
جب میں نے اپنے بوڑھے والدین کو یہ خوشخبری سنائی توانھوں نے مجھے گلے لگایا۔
والد کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو چھلک پڑھے۔ والدہ نے سرسے دوپٹہ اتارکرننگے سر شکراداکرتی رہی۔
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ اب میرے باباکے دل کاعلاج ہوگا۔
میرے بابادل کامریض ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اسکی فوری انجیو پلاسٹی ضروری ہے ورنہ اگلے اٹیک پراسکا بچنا ناممکن ہوگا۔
یقین کریں ہمارے پاس علاج کیا کرایہ کے پیسے بھی نہیں لیکن سر…..!!!
اچانک اس نے روناشروع کیا۔ تھوڑی دیر بعد بولنے لگا۔
سر ہم نے ٹریننگ بھی مکمل کیا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے تفتان کے قرنطینہ سینٹرمیں ڈیوٹی دے رہاہوں۔
یہ بھی جانتاہوں کہ کروناوائرس کے مریضوں کے درمیان رہ رہاہوں۔
میری زندگی رسک پر ہے۔ کسی بھی وقت کرونا کے خطرناک مرض میں مبتلا ہوسکتا ہو مگرزندگی میں ایک ہی ارمان ہے کہ میرے باباکے دل کاآپریشن ہو۔
میرابابا بچ جائے۔ بابانے ساری زندگی غربت میں گزاری مگر مجھے کبھی بھوکانہ رکھا۔
بلکہ بی اے تک پڑھایا۔ میں بابا کو مرتے نہیں دیکھ سکتا۔
اگر میری تنخواہ نہیں ملی تو بابا نہیں بچے گا?
وہ ایک بارپھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کیا۔
میں نے اسے تسلی دی کہ بے فکر رہو۔ اللہ مالک ہے۔
اور فون بندکیا۔
یہ صرف ایک نوجوان کی داستان نہیں۔
یہ 144 نوجوانوں کی داستان ہے۔ میں خود ایسے ایک نوجوان کوجانتاہوں جو اپنی بیوہ ماں اور چھوٹے یتیم بہن بھائیوں کا واحد سہارا ہے۔
یہ سب اس ملک اس صوبے کے زہین اورباہمت نوجوان ہیں۔
جن کو سفارش نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اچھی نوکری نہیں ملی اور بلآخر لیویزفورس میں انھیں ملازمت ملی۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھرتی ہونے والے صوبے کے دیگر تمام لیویز اہلکاروں کو باقاعدگی سے تنخواہ مل رہی ہے۔
صرف یہ بدقسمت رخشان ڈویژن کے لیویز نوجوان ہیں جوگزشتہ 10 مہینوں سے تنخواہ کے لئے رل رہے ہیں۔
چشم بد دور
"فرزندچاغی” میرعارف جان محمد حسنی
"فخررخشان” محمدہاشم نوتیزی
"فخرنوشکل” بابو محمد رحیم مینگل
"غریبوں کاہمدرد” سینیٹرمحمدیوسف بادینی
اور خاص طور سے دو ممتاز قوم دوست اور وطن دوست لیڈر سینیٹرڈاکٹرجہانزیب جمالدینی اور اسمبلی میں سب سے زیادہ چہکنے، لپکنے چست آستینیں اوپر چڑھا کر ہاتھ ہلا ہلا کراور فرفر انگریزی اردو بولنے اورالفاظ، اعداد و شمار کے جادو گر "بلبل بلوچستان” ثناء بلوچ صاحب کاتعلق اسی رخشان سے ہے۔
ہاں یادآیا ثنائبلوچ صاحب آپ تو 30 سالوں سے تواتر سے بلوچستان کی عوام کی پسماندگی، درماندگی، بے وسی، بے چارگی، ان کے بوڑھوں اور بزرگوں کی دستار کی بلندی کاراگ الاپتے رہے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ کرونا سمیت ہرمسئلہ پر آپ ایڈوانس حکومت کو لتاڑتے رہے۔
ہرمسئلہ سے نہایت باخبر مگرآپ کے رخشان کے 144 لیویز اہلکار تنخواہوں سے محروم۔
ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑگئے۔
مجھ جیسا عام "ماسٹر” بھی اس سے آگاہ ہے۔
مگرآپ جیسازی شعور باخبر، دانشمند اورسب سے زیادہ بولنے والا "بلبل بلوچستان” کیسے بے خبر اور چپ رہ سکتاہے۔
آپ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں یاان غریبوں کو آپ بھول گئے جن کے ووٹوں سے آپ ایم پی اے بن گئے؟
ساتھ ہی میں صوبائی وزیرداخلہ محترم میرضیائلانگو سے ملتمس ہوں کہ آپ کے والد محترم شہید میر عبدالخالق لانگو ساری عمرانہی غریبوں کے حقوق کے لئے سیاست کرتے رہے۔
آپ فورا ان کی تنخواہ دلائیں۔
اوراپنے شہید والدکامشن پوراکریں۔
رخشان کے عوامی نمائندو، میرضیائ لانگو اور ڈائریکٹر جنرل بلوچستان لیویز مجیب قمبرانی صاحب….!!!
یہ سب آپ کے غریب نوجوان بھائی ہیں۔
رمضان میں ان کوافطاری اور عیدکوان کے معصوم بچوں کونئے کپڑوں سے خدارامحروم نہ کریں۔
ان کو ان کا حق اورتنخواہیں دیں۔
ان غریبوں، بیواوں، یتیم بچوں اور اس بوڑھے اوربیمار باپ کی دعائیں لیں جواس آسرے پربیھٹے ہے کہ اس کابیٹا تنخواہ لیکر اسکا علاج کروائیگا۔
جلدی کریں ورنہ اگراس بوڑھامریض کوکچھ ہوا تواس کی موت کی زمہ دار آپ سب ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں