کوہ سلیمان خوبصورتی کا دوسرا نام

زوراخ بزدار
جب سے انسان دنیا میں آیا ہے اس ماحول سے اسکی زندگی کے تمام پہلو وابستہ ہیں روزمرہ کے اشیاء سے لیکر سانس لینے تک سب کا تعلق اس ماحول سے ہے جس میں وہ رہتا ہے۔چند سال پہلے دنیا کے سائنس دانوں نے خبر دار کیا تھا کہ اگر ماحولیاتی آلودگی کو روکا نہ گیا تو اوزون کے تہہ میں پیدا ہونے والے سوراخ سے کرہ ارضی کا تمام ماحولیاتی نظام درہم برہم ہوجائے گا مگر کسی نے توجہ نہیں دی اللہ تعالیٰ نے کرونا کی شکل میں ایک وائرس بھیجا پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہوا اور چند ہفتوں میں وہ سوراخ مندمل ہوا۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کو جب بھی پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اللہ کی سنت اللہ کے قدرت سے خود بخود نافذ ہوجاتی اور ہم چاہیں یا نہ چاہیں اللہ اپنی قدرت کسی بھی طریقے سے اپنی سنت پر عمل کرکے دکھا دے گا کبھی وہ ہمیں مفید معلوم ہوتا ہے اور کبھی ہم اسکو آزمائش و ابتلاء سمجھتے ہیں۔
اس پوری تمہید کا مطلب یہ تھا کہ میری تحریر جو میرے وطن کوہ سلیمان کے ماحولیاتی سسٹم سے متعلق ہے لوگوں کو خبردار کروں ہم اپنے ماحول کو کس طرح بے رحمی سے برباد کررہے ہیں اور اس کے کیا کیا نتائج ہمارے سامنے ہیں اور کیا متوقع ہے
اس معاملے عوام کے ساتھ ساتھ حکومتی سسٹم کی مجرمانہ غفلت بھی شامل ہے کہ وہ انکو اس دانستہ یا نادانستہ جرم سے روک نہیں رہااور نہ ہی آگاہی کا کوئی انتظام ہے کہ کوہ سلیمان کے باسی چند پیسوں کے عوض درختوں کو نیلام کررہے ہیں اور چند لقموں کے لذت کے لئے پرندوں کو مار بھون کر کھارہے ہیں اس سے اس خطے کا کتنا نقصان ہورہا ہے۔آپ کو صرف مینا جسے بلوچی میں دریشک کہتے ہیں یہ اتنا ماحول دوست پرندہ ہے اللہ اسکو عین اس وقت بھیجتا ہے جب سنڈیاں درختوں اور فصلوں کو نقصان پہنچانا شروع کرتی ہیں مگر ہم اتنے نادان ہیں کہ ہر آدمی ائرگن لیکر انکے شکار کے لئے نکل جاتا ہے اور ایک گھنٹے میں دوچار کا شکار کرکے واپس آتا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ اس وطن کا اس کے ماحول کا اور اپنا کتنا نقصان ہواکچھ لوگ درختوں کو کاٹ کر لکڑیاں بیچتے ہیں اس سے جنگلات کا اتنا نقصان ہورہا ہے کہ اب کوہ سلیمان کا موسم پرانا نہ رہا اب یہاں گرمی اسی شدت سے پڑتی ہے جس شدت سے دامان کے ریگستانی علاقوں میں پڑتی ہے بارشوں کی سالانہ شرح کم ہورہی ہے سرسبز چوٹیاں اب سیاہ چادر اوڑھ کر بلوچوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں کہ ہوش میں آؤ یہ تم کیا کررہے ہو.
وہ علاقے جہاں 500 مربع فٹ کے اندر آپکو کم از کم 50 اقسام کی مختلف جڑی بوٹیاں ملتی تھیں اب وہاں خاک اڑتی ہے یا سیاہ پتھر ہیں جہاں آپکو تیتر بٹیر چکور فاختہ کبوتر پتہ نہیں کتنی اقسام کے پرندے ایک مربع کلومیٹر کے اندر مل جاتے تھے وہاں کے ہمارے نوجوان بچے انکی تصاویر دیکھتے ہیں تو انکو پہچان نہیں پاتے۔ کوہ سلیمان میں بہار اور برسات کے موسم میں ایسی بارشیں ہوا کرتی تھیں کہ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہوتا تھا اگر ایک چرواہا اپنے ریوڑ کو کہیں چھوڑ کے چلاجاتا تو واپس آکر وہ انکے گلے میں بندھی ہوء ٹلیوں کی آوازیں کان لگا کر سنتا کہ بھیڑیں اور بکریاں کہاں ہیں ورنہ چرواہے کو گھاس کے جنگل میں بھیڑیں اور بکریاں نظر نہیں آتی تھیں مگر آج حال یہ ہے کہ لوگوں کے پاس نہ بکریاں ہیں نہ بھیڑیں اگر کسی کے پاس دس پندرہ ہیں بھی تو چائے کے لئے دودھ نہیں ہے چائے میں ملک پیک سے کام چلانا پڑتا ہے ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ کوہ سلیمان کے باسیوں کے پاس دیسی گھی کے مشکیزے ہوا کرتے تھے جن کو بلوچی میں (زِک) کہا جاتا ہے۔کوہ سلیمان کے جنگلوں میں شہد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ سعودی اور دبئی کو ہم یہاں سے شہد بھیجتے تھے اور آجکل یہ عالم ہے کہ ہم مختلف یونانی کمپنیوں کے پیکنگ میں دستیاب شہد لینے پہ مجبور ہیں۔ہمارے ہاں سے پیثغ جو ایک جنگلی سبزی ہے لوگ اسے لاتے اور فخریہ طور پہ مہمانوں کو اسکا سالن بنا کے پیش کرتے تھے مگر افسوس زر پرستوں نے اسکو جڑوں سے اکھاڑ کر پاکستان کے مختلف سبزی منڈیوں میں مہنگے داموں فروخت کیا اب وہ بھی تقریباً ناپید ہوچکی ہے۔جنگلی زیتون جسے بلوچی میں (ہث) کہتے ہیں ایک سدا بہار درخت ہے سارا سال چارے کا کام دیتا تھا اسکی افزائش کی بجائے کاٹ کاٹ کر اسکی لکڑی مختلف علاقوں میں فروخت کی گئی۔ ایک اور درخت جسے بلوچی میں (تُلی) کا درخت جس کی لکڑی کی خوبصورتی پورے علاقے میں مشہور تھی اسکا تو کہیں نام نشان نہیں۔مئیور کے درخت اسکے پھل اور اسکے ذائقے کو جس طرح بلوچی شاعری میں شعراء نے اپنی تشبیہات میں استعمال کیا کہ بلوچ شعراء اپنی محبوبہ کو مئیور کے درخت سے تشبیہ دیتے تھے۔اب یہاں کی نسلیں اسکے نام سے نا آشنا ہوتی جارہی ہیں۔زامر کے بیل کی نرمی اور حسن کو ہمیشہ بلوچی شاعری میں ایک خاص مقام حاصل رہا۔محبوب کی زلفوں کو ہمیشہ زامر سے تشبیہ دی گئی۔کوہ سلیمان میں ایک ایک چشمے سے کئی کئی سو ایکٹر زمین سیراب ہوتی تھی اب نہ کسی کو انکی جگہیں معلوم ہیں اور نہ نام گیدرشک، دولک اور شف کاچر کے حسن کا تو تذکرہ ہی الگ ہے مگر آج وہ بھی خال خال نظر آتے ہیں انکے گرد رات کو جگنو اتنی کثرت سے ہوتے ایسے لگتا تھا کہ چھوٹے چھوٹے برقی قمقمے جگمگا رہے ہیں۔اب وہ منظر بھی نہیں۔کھؤر کے درخت جسے پھلاہ کہتے ہیں کاٹ کاٹ کر بیچے گئے گرگول جس کا درفش(کیچپ) نکال کر رکھ دیا جاتا اور سارا سال دیسی گھی اور درفش سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی اب سو میں کسی ایک کو انکے پھل کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔کاہ کے جنگل ہوا کرتے تھے گائے بیل اگر گھس جاتے تو مالک کے لیے انکو ڈھونڈ لانا ممکن نہ ہوتا بلوچ اپنی چھوپڑیاں انہیں سے بناتے تھے مگر آج دور تک انکا نام و نشان نہیں۔گیشتر کے درخت اتنے کثرت سے تھے انکے پھولوں کا اپنا حسن تھا گیشتر ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے نہیں ہیں اب آپ سوچیں کہ جس درخت کے پتے سرے سے نہ ہوں جب وہ پھولوں سے لد جائے تو کیا منظر ہوگا۔پھرپغ کے درمیانے قد کا درختوں سے موسیقی کے آلات بنائے جاتے تھے بہار میں انکے زرد پھولوں کا اپنا ایک منظر ہوتا تھا اب وہ بھی نہ بچے۔حیرت اس بات پہ ہے کہ اپنے گلوں کو گلخن میں ڈال کر ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔وہ کونسا مکیں ہے جو مکاں کو اجاڑنے پہ تلا ہوا ہو۔حالانکہ مکاں کی خوبصورتی مکین کے شان کی علامت ہے مگر کوہ سلیمان کے باسی وہ بد قسمت ہیں جو اپنے مرغزاروں کو ویران کرنا چاہتے ہیں وہ سبز چادر میں ملبوس وطن کو برہنہ کرنے کا عمل دن رات جاری رکھے ہوئے ہیں۔اگر یہی رویہ رہا تو یہ چمن چند سالوں کے بعد باقی نہیں ہوگا۔
یاد رکھیں گھر کو جلا کر راکھ کے ڈھیر پہ نہ کوئی آج تک نشیمن تعمیر کر سکا نہ ہم کرسکیں گے۔تو کیا وقت نہیں کہ ہم اس گودی کو اجاڑنے سے باز آجائیں جس گودی میں ہم نے زندگی کی بہاریں دیکھیں جس کے پر رونق ہونے کے خواب ہمارے پرکھوں نے دیکھے۔
وطن بارونق ہوگا تو باسیوں کے چہرے بھی بارونق ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں