بی آئی ایس پی،2000 سےکیسے گھر چلتاہے، تربت کے ایک خاتون کی زبانی

گہرام اسلم بلوچ
حال ہی میں ( بینظیر انکم سپورٹ پروگرام – بی آئی ایس پی) کے نام کو تبدیل کر کہ مزید اصلاحات لانے کے لئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایک نیا پروگرام احساس پروگرام کے نام سے متعارف کردیا ہے۔ اس وقت احساس پروگرام کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت 1کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کے سربراہاں کو فی کنبہ کو مبلغ 12000 9 اپریل 20 20 سے ملنا شروع ہوگیا ہے اور اس پروگرام کی کل لاگت 144 ارب ہے۔ بی آئی ایس پی سے احساس پروگرام کی منتقلی سے بلوچستان کے مستحق غریب عوام کو کیافائدہ ہوگا اس بارے (بی آئی ایس پی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشن بلوچستان سہیل انور سے کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام ایک بڑے پیمانے پر حکومت پاکستان کی جانب سے کام کر رہا ہے جبکہ بی آئی ایس پی اسکی ایک %component ہے جو کہ ماہانہ,/2000 روپے ملک بھر سے 45 لاکھ غریب خواتین کو دیتی ہے۔ جبکہ احساس پروگرام میں بلاسود قرضے، صحت سے متعلق پروگرام شامل ہیں۔ چونکہ میرا تعلق بی آئی ایس پی سے ہے اس وجہ سے احساس پروگرام کے باقی پروگرام کا کوئی خاص علم نہیں۔پاکستان بھر میں اس پروگرام سے 45 لاکھ غریب خواتین مستحق افراد مستفید ہو رہے ہیں جبکہ بلوچستان میں تقریبا 2 لاکھ کے قریب افراد مستفید ہورہے ہیں۔ماہانہ,2000 سے غریب خاندان کو سپورٹ مل رہی ہے۔بی آئی ایس پی اب تک 2010_2011 کے سروے کے مطابق ملک بھر میں 45 لاکھ لوگوں کو ماہانہ رقم منتقل کر رہی ہے۔ مگر 2016 میں حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ کافی سال گزر گئے شایدوقت کے ساتھ لوگوں کے حالات میں بھی تبدیلی آ گئی ہوگی شاید غربت میں بھی ا ضافہ ہوا ہو۔ اسلئے 2016 میں ((پائٹ)) فیز میں ملک بھر کے کچھ اضلاع میں سروے کا آغازہوا جس میں بلوچستان سے بھی تین اضلاع نصیر آباد، کیچ، قلہ سیف اللہ شامل ہے۔ یہی سروے پائٹ فیز کے بعد 2019 میں ملک بھر میں تمام اضلاع میں سروے کا آغاز کیا گیا جو کہ اب تک جاری ہے۔ سروے کے دوران گھر گھر جاکر سوالات پوچھے جائیں گے جس سے اندازہ کیا جا سکے کہ خاندان میں غربت کس حد تک ہے۔ اسکی شفافیت کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لایا گیا ہے اور یہ سوالات اسی وقت پوچھنے کے بعد جوابات %Tables)? میں اندراج ہونگے اور Data فور ا اسلام آباد میں بی آئی ایس پی ہیڈکوارٹر ٹرانسفارہو کر اسTable سے ڈیلیٹ ہوتے۔
بی آئی ایس پی کا خودکار نظام اسلام آباد پھر اس ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرکے ایک غربت کیلئے جو مخصوص اسکور رکھا گیاہے اسکو کوالیفائی کرکے اس خاتون کو BISP میں داخل کر دیتا۔ واضع رہے بی آئی ایس پی کے کچھ ایسے بنیادی معلوماتی سولات ہوں گے جس سے ادارے کو یہ آسانی ہوگا کہ کون مستحق ہے۔
انکا کہنا تھا کہ احساس پروگرام کے سود کے بغیر قرضے کے پروگرام کے حوالے سے خاصی معلومات نہیں کیونکہ میں BISP سے وابستہ ہوں۔اس وقت بلوچستان بھر میں بی آئی ایس پی سے 220,930 لوگ مستفیدہو رہے ہیں۔ جس میں ایک خاتون کو ماہانہ،/2000 روپے موصول ہو رہے ہیں۔ پہلے ہر تین مہینوں میں خاتون کو =/5000 روپے ملتے تھے، جو کہ اب اس حکومت میں ماہانہ مبلغ 2000 روپے کر دئیے۔ بی آئی ایس پی کے تحت تربت کے کم از کم 2، سے 3 ہزار خواتین مستفید ہورہی تھیں۔ حالیہ حکومتی رپورٹ کیمطابق کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریب لوگوں کے پیسوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بلوچستان میں ایسا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہواہے البتہ یہ ہوا ہے کہا موبائل ریٹیلرز کی جانب سے فی کارڈ ہولڈر سے 200،300 روپے لیا جاتا تھا اور وہ بھی بس دو، تین اضلاع میں اس بارے میں محکمے کا موقف ہے کہ ہمارا شکایتی میکا نزم کچھ یوں ہے کہ ہماری تحصیل و ضلعی سطح پر شکایتی سیل قائم ہے اگر اس طرح کا کوئی کیس سامنے آجاتا ہے تو متاثرین اسی طریقہ کار کے تحت ایک درخواست دیتا ہے اس میں وہ لکھتا ہے کہ میرے اتنے مبلغ کی کٹوتی ہوئی تو اسی درخواست کوتحصیل،ڈویژنل یا صوبائی ہیڈ کوارٹر میں بھیج دیتا ہے پھر یہاں سے بی آئی ایس پی کے ہیڈ آفس اور بینک کوفاروڈ کی جاتی ہے اس پہ پوری طور پرعمل درآمد ہوتا ہے اور ملوث ریٹیلر کو ہمیشہ کے لیے بلاک کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے میں نے علاقے کے ایک خاتون جو کہ اسوقت بی آئی ایس پی سے مستفید ہوئی ہے انہوں نے میڈیا پر نام نہ آنے کی شرط سے بتایا کہ میں ضلع کیچ تربت کے ایک دور افتادہ گاؤں بلوچ آباد کی رہائشی ہوں میرے د بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں اورمیرا کوئی اور دوسرا چارہ نہیں ہے۔ میرا گاؤں تربت سٹی سے 28 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ایک مستحق خاتون ہوں جس سے مجھے اور میرے خاندان کو بہت مدد ملی ہے اس پروگرام کے تحت ملنے والی امداد سے میں اپنے گھر کا راشن لیتی تھی۔ لیکن ہم ماہانہ پیسے نکالنے کے لیے تربت سٹی جاتے ہیں تو ہمیں بہت ساری اذیتیں سہنی پڑتی تھی کیونکہ بی آئی ایس پی کے پیسے شروع میں ہمیں ڈاکخانہ کے ذریعے ملتے تھے بعد میں ہمیں اسکا ایک، اے ٹی ایم کارڈ جاری ہوا -ناخواندگی کے سبب سے اے ٹی ایم کارڈ کا استعمال کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے جس کے لیے ہمیں دوسروں کا سہارا لینا پڑا بعض اوقات پیسے چوری ہونے کا خدشہ بھی تھا اور ساتھ ساتھ گاؤں سے اتنی دور کی مسافت سے ٹرانسپورٹ کی مشکلات بھی پیش آتی تھیں۔ اْنکا مزید کہنا تھا کہ ابھی دو مہینے سے میرے پیسے نہیں مل رہے ہیں ہم پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں مجھے اسکا کوئی علم بھی نہیں ہے کہ کیوں نہیں مل رہے ہیں جسکی وجہ سے اسوقت میراخاندان بہت پریشان ہے اور میں ذہنی مریض بن گئی ہوں کیونکہ بی آئی ایس پی سے میرے خاندان کو سپورٹ مل رہی تھی اور میں اپنے گھر کا راشن اسی سے پورا کرتی تھی۔ابھی سْننے میں آرہاہے کہ عمران خان کی حکومت نے بی آئی ایس پی کیساتھ ایک اور نیا پرگرام حساس پرگرام شروع ہورہاہے جسکے لیے بائیومیٹرک سسٹم ضروری ہے جسکی وجہ سے ہم فکر مند ہیں کہ دوبارہ تربت شہر جانا پڑتا ہے اور معلوم نہیں اب اس پروگرام کے لیے میں اہل ہوں یا نہیں۔ لہذا حکام بالا سے گزارش ہے کہ میرے اکاؤنٹ کو دوبارہ بحال کیاجائے تاکہ کہ میرے گھر کا چولہا جلے اور مجھے اور میر ے خاندان کو سپورٹ ملے یا احساس ہروگرام کے تحت میرا نام شامل کیا جائے۔
اس بارے میں میں نے متعلقہ محکمے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر (جورک بلوچ) سے رابطہ کیاتو اس حوالے سے انہوں نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ مذکرہ خاتون کے اکاؤنٹ کو ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس لیے بلاک کردیا گیا ہے کہ اْسکے شوہر نے ایک بار سے زائد بیرون ملک کا ٹریول کیا ہے۔

.

اپنا تبصرہ بھیجیں