لاک ڈاؤن اورحکومتی اقدامات

عاطف رودینی بلوچ
کرونا جس تیزی سے دنیا میں پھیل رہاہے اسکا اندازہ دن بدن تیزی سے بڑھتے ہوئے کرونا کے زد میں آنے والے مریضوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے دنیا بھر کے بہترین ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کے ساتھ حکمران، حکومتی نمائندے، سیاسی لیڈران، پولیس، صحافی، مختلف سماجی و فلاحی ادارے اور تنظیمیں کرونا کے خلاف اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے جدوجھد کررہی ہیں مگر اس کے باوجود بھی کرونا پر کنٹرول حاصل کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔کرونا سے سب سے پہلے متاثر ہونے والا ملک چین نے کرونا کو پھیلنے سے روکنے کیلئے لاک ڈاؤن کا راستہ اختیار کیا اور عوام نے بھی حکومت سے بھرپور تعاون کی جس کے نتیجے میں چین نے کافی حد تک کرونا پر کنٹرول حاصل کر لیا دیگر ممالک بھی کرونا کو پھیلنے سے روکنے کیلئے لاک ڈاؤن کا راستہ اختیار کررہے ہیں جس سے دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن ہیں یہاں تک کہ چند ممالک میں لاک ڈاؤن کے خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سخت سزا بھی طے کیا گئے ہیں۔ مگر دوسری طرف بلوچستان میں لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ٹریفک معمول سے زیادہ نظر آ رہی ہے کیونکہ سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے اکثر لوگ گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہونے سے بچنے کیلئے بازاروں کا رخ کرتے ہیں اور ماہ رمضان کی آمد سے پہلے رمضان المبارک کی تیاری اور گھریلوں سامان پورے کرنے کیلئے بازاروں میں شاپنگ میں مصروف تھے جس سے بازاروں میں عام دنوں کی نسبت زیادہ رش ہوتا ہے۔ اس طرح لاک ڈاؤن اور حکومتی فیصلوں کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
ناقص کارکردگی کی باوجود صوبائی حکومت بڑے بڑے دعوے کرنے والی عادت سے باز نہیں آرہی۔حکومت بس سوشل میڈیا تک محدود ہے۔ حکومت اقدامات تو جاری کردیتی ہے لیکن احکامات جار ی کر کرنے کے بعد اقدامات پر نظر ثانی کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔ صوبائی حکومت کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر ایک اور دعویٰ کیا کہ لاک ڈاؤن میں دکانداروں کی طرف سے خلاف ورزی کرنے کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کرکے ان کی دکانیں سیل کر دی گئی ہیں جس کے بعد لاک ڈاؤن پر عملدرآمد سختی سے کیا جا رہا ہے۔ حکومتی ترجمان کے دیگر دعوؤں کی طرح یہ دعویٰ بھی عوام کو بے وقف کرنے کیلئے تھا۔ دکانیں عام دنوں کی طرح اپنے وقت پر کھلتے اور بند ہوتے ہیں بازاروں میں ہجوم برپا ہیں۔ قانون اور لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کروانے میں اہم کردار ادا کرنے والی پولیس بھی اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نبھانے میں ناکام لگ رہی ہیں۔ اور اس مشکل کی گھڑی میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کررہی ہے بلکہ یہ سننے میں آرہا ہے کہ ان کی روئیوں کی وجہ سے شہری مزید پریشان ہیں۔وہ سماجی فاصلے پر نظر رکھنے کی وجہ گاڑی کے کالے شیشے چیک کرتے نظر آتے ہیں۔
جب دارالحکومت کی حالت ایسی ہے تو دیگر شہروں کے حالات کا اندازہ بہتر لگایا جاسکتا ہے ٹرانسپورٹ سسٹم میں بھی حکومت غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ عوام بڑی تعداد میں اپنی گاڑیوں، ٹیکسی اور یہاں تک کے چوری چپھے گڈز ٹرانسپورٹ کے ذریعے ایک شہر سے دوسرے شہر با آسانی سفر کررہے ہیں جس سے کرونا کے پھیلنے کے خطرات بہت ہی زیادہ ہیں۔ ایران بارڈر سے زاہرین کی بڑی تعداد ملک میں داخل ہو رہی ہیں۔ افغان بارڈر سے دن میں کئی افراد بارڈر پار کرکے قانونی و غیر قانونی طریقے سے بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں جو بلوچستان سمیت پورے ملک کیلئے خطرے کا سبب بن سکتا ہے۔
مگر اس کے باوجود بھی صوبائی حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ حالات کنٹرول میں ہے لاک ڈاؤن برقرار ہے حکومت کو سوشل میڈیا سے نکل کرزمینی حقائق کو دیکھنا چاہیے بلوچستان میں ناکام لاک ڈاؤن حکومت کی بے بسی اور نا اہلی کو واضح طور پر بیان کر رہا ہے عوام کا حکومت پر اعتماد یہ ہے کہ عوام کو ابھی تک یقین نہیں آیا کہ کرونا واقعی یہاں موجود ہیں۔عوامی رائے عامہ یہ ہے کہ بیرونی فنڈز کی خاطر حکومت کرونا کے اعداد شمار بڑھا چڑھا پیش کررہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں