میڈیا سچائی کاعلمبردار یا ایجنڈا ء سیٹنگ تھیوری پر عمل پیرا

تحریر: عبدالکریم
مولانا طارق جمیل نے دعائے بیان میں پاکستان کے میڈیا کو جھوٹا قرار دیا، جس پر میڈیا صنعت میں ایک کہرام مچ گیا مولانا طارق جمیل پر لعن طعن کی بارش شروع ہوگئی،جس کے بعد مولانا طارق جمیل نے میڈیا کے سچے صحافیوں سے معافی مانگی لی تھی۔یہ تو تھی آج کل کی بات لیکن کیا واقعی پاکستان کی مین سٹریم میڈیا سچائی کا علمبردار ہے یا ایجنڈا سیٹنگ تھیوری پر عمل پیرا ہے اس بات کو سمجھنے کیلئے ماضی قریب میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں اور بات پیچھلے رمضان کے خڑکمر واقعے سے شروع کرتے ہیں جب قومی اسمبلی کے دو ممبران علی وزیر اور محسن داوڑ وزیرستان کے مقامی لوگوں کے دھرنے میں شرکت کیلئے وزیرستان جا رہے تھے تو خڑکمر میں ان پر اور ان کے استقبال کرنے والے والوں پر فائرنگ شروع کردی گئی، فائرنگ کی زد میں آکر تیرہ سے زائد مقامی افراد جانبحق ہوگئے اس واقعے کے بعد مذکورہ دونوں ممبران اسمبلی پر ایف آئی ار کاٹ دی گئی اور میڈیا پر اس کے خلاف ملک دشمنی کی باقاعدہ مہم کا آغاز ہوگیا۔ دونوں کو ملک دشمن قراردے گئے۔ لیکن کسی بھی چینل یا بڑے اخبار نے واقعے کی سچائی پر مبنی رپورٹنگ نہیں کی بلکہ ایجنڈے کے مطابق حقائق کو چھپانے کیلئے تیز و طرار سرخی پوڈر اور لپ سٹک لگائے اینکروں نے لوگوں کی واقعے کے متعلق رائے بنانے کیلئے قومی جذبات کا سہارا لیا اور واقعے کو حب الوطنی سے نتی کرلیا اور سچائی اس میں دب گئی اس دوران طوطی نقارے میں چختا چلاتا رہا لیکن نقارے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔
بات یہی تک ختم نہیں ہوتی بعض اوقات تو میڈیا سچ بولنے سے تو قاصر ہوتا ہی ہے لیکن اگر کوئی سچ بول رہا ہوتا ہے تو اسے دکھانے سے بھی کتراتا ہے۔ اس کی واضح مثال پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کا پاکستان کے ایک مین اسٹریم ٹی وی چینل پرپروگرام کہ ایک حصے کے چلنے کے بعد باقی پروگرام چلنے کی طرف نشر کرنے سے گریز کیا گیا۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ کے بعد پہلا مکمل پروگرام جو ایک بڑے نامور صحافی کے ساتھ تھا نشر نہیں کیا گیاْ۔
اسی طرح ملکی میڈیا کے چینلز نے قوم پرست رہنماوں کی شرکت پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کی ہے بلکہ یہاں تک بس نہیں کیا اسی چینلز کے اینکر شام ہوتے ہی قوم پرست رہنماوں کو کچھ تصاویر اور ملاقاتوں کی بنیاد پر غداری کے تمغے ڈھٹائی کے ساتھ بانٹتے ہیں۔
میڈیا کی سچائی،بہادری اور مفادات یہی تک محدود نہیں ہیں جب کراچی جل رہا تھا لاشیں بوریوں میں مل رہی تھییں سرعام بھتہ لیا جاتا تھا اس بھتے کی زد میں حب رویور روڈ پر واقع بلدیہ فیکٹری بھی آئی جس کو بھتہ نہ دینے پر جلا دیا گیا اس آگ میں دوسوپچاس سے زائد مزدور جھلس کر موت کے منہ میں چلے گئے لیکن میڈیا کو کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ذمہ داروں کا نام لے سکے۔لیکن مفادات اتنے عزیز تھے کہ کراچی کے قاتلوں گھنٹوں گھنٹوں تک پرائم ٹائم میں کوریج دیتے ذمہ دار پارٹی کا اگر ادنیٰ ورکر بھی پریس کانفرنس کرتا تھا تو اس کی پریس کانفرنس براہ راست دکھائی جاتی تھی۔ اچھنبے کی بات تو یہ تھی انہی ذمہ دار گروہ کی امیج کو بہتر بنانے کیلئے انہی میں سے کسی کو تجزیہ نگار بناکر پروگراموں میں معزز مہمان کے طور پر بٹھائے جاتے تھے لیکن کبھی بھی کسی صحافی کے ضمیر نے اسے سچ چھپانے پر ملامت نہیں کیا۔
بلوچستان تو متعبر اور قابل احترام میڈیا کے سچائی کے رینج میں آتا بھی نہیں ہے اور نہ اس متعلق کسی کے ذہن میں کوئی خیال انگڑائی لیتا ہے بس اتنی ہی سچائی قابل عزت اور سچائی کے علمبردار میڈیا کو پتہ ہے کہ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کے 43فیصد رقبے پر محیط ہے اکثر کو اس کے محل وقوع اور لوگوں کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہے اس لیے بلوچستان کے ایک بہت بڑی قوم بلوچ کو اس کی زبان بلوچی سے مخاطب کرتے ہیں مطلب وہ بلوچی اور بلوچ میں فرق کرنے سے بھی قاصر ہیں اب اس بات سے اندازہ لگائیں کہ پاکستان کامین اسٹریم میڈیا سچائی تک پہنچنے اور اسے سامنے لانے میں کتنی سنجیدہ ہے۔
مذکورہ بالا مختصر سے گزرے واقعات پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا کا ایک رخ ہے۔ یاد رہے تحریر میں ان پروگرامز کا ذکر نہیں کیا گیا جو اشخاص کے امیج بلڈاپ کیلئے پیسے لیکر کئے گئے۔ مذکورہ واقعات سے اس بات کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا ایجنڈا سیٹنگ تھیوری پر عمل پیرا ہے یا سچائی کا علمبردار ہے۔ وہ قارئین جو ایجنڈا سیٹنگ تھیوری سے نابلد ہیں ان کو سمجھنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ایجنڈا سیٹنگ تھیوری کے تحت میڈیا زمینی حقائق کی بجائے ایک اسکرپٹ کے تحت کام کرتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں