معاشرہ کی تعمیر افراد کی قربانی کا نتیجہ ہے

تحریر: زبرین بلوچ
کوئی بھی معاشرہ بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا ہے، مالی اور جانی دونوں قربانیاں لوگ دیتے رہے ہیں، زندگی کی خوشیاں قربان ہوگئی ہیں، دوسروں کے دیئے غم بھی برداشت کی گئی ہیں، لوگ اپنے گھروں سے محروم ہوگئے ہیں، باپ نے بیٹے اور بیٹی کی قربانی دی ہے، ماں بیوہ ہوکت اولاد کی خاطر زندگی قربان کی ہے، بہن اپنی بھائی کی خدمت کی خاطر سالوں تک شادی نہیں کی ہے، ایک باپ نے پسینے کی قربانی دی ہے، ایک لیڈر نے اپنی قوم کی بقا کی خاطر کڑوے گھونٹ پی ہے، ایک بیٹے نے ماں کی خاطر جگر کی قربانی دی ہے، راہ گیروں نے ہسپتالوں میں خون دئیے ہیں، ایک استاد نے اپنے وقت کی قربانی دی ہے، ایک ڈاکٹر نے نیند کی قربانی دی ہے، ایک ڈرائیور نے اپنی جان کھو کر پانچ زندگیاں بچائی ہے، ایک سپاہی نے اپنا آرام اور سکون چھوڑ کر لوگوں کی مال کی حفاظت کی ہے، ماں بیٹے کو جنم دے کر خود جان بازی ہار گئی ہے، مالدار نے بھوکے کو کھانا دی ہے، باپ نے اپنی زندگی اولاد کے لئے وقف کی ہے، صحافی نے جان کی بازی کھیل کر مظلوم کی آواز بنی ہے، ساتھی نے دوست کو بچانے خود سمندر میں چلانگ لگائی ہے، مزدور خود آسمان تلے سوکر دوسروں کےلے اونچی عمارتیں تعمیر کی ہیں۔
مصنف اپنی ذہنی کیفیت کھو کر لکھتا ہے، قاری اپنا وقت وقف کرکے پڑھتا ہے، فلسفی لوگوں کی بدبودار الفاظ سن کر بھی مسائل کے حل کی کوشش کرتا ہے، خطیب پانچ وقت مسجد میں نماز پڑھاتا ہے، پادری اپنی پوری زندگی چرچ میں گزارتا ہے، ایک طالب علم مصروفیات چھوڑ کر سماجی کام کرتا ہے، لوگ بیرون ملک جاکر اپنے بچوں کے لئے جائیداد بناتے ہیں، سائنس دان اپنی زندگی، گھر، بچے چھوڑ کر تحقیق کرتے ہیں، ایک موچی اپنی زندگی دوسروں کے جوتے سیتا ہے، ایک شخص اپنی پیٹ کی خاطر چند رقم کے عوض دوسروں کے گھروں میں جھاڑو دیتا ہے، ایک قاری آپکے بچوں کو قرآن پڑھاتا ہے، ایک پنڈت اپنی زندگی عبادت کے لئے وقف کرتا ہے، اخبار فروش گھر گھر لوگوں کو اخبار پہنچاتا ہے، ایمبولینس ڈرائیور پوری رات لوگوں کی جان بچانے کی خاطر جاگتا ہے، واپڈا اہلکار بجلی کے کھمبوں پہ چڑہ کر جان کی بازی ہارتے ہیں۔
کیا ہم معاشرے کی ان افراد کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کررہے ہیں؟ کیا ہم صرف چند گنے چنے لوگوں کی تعریف نہیں کررہے ہیں؟ معاشرے کے اندر ہر ایک شخص اپنا کردار نبھاتا ہے تب ہی تو معاشرہ کی عمارت قائم ہے، اگر کوئی بھی شخص اپنی کام نہ کرے تو ایک معاشرہ، معاشرہ نہیں کہلاتا، اگر مزدور کام نہیں کرتا تو آج دنیا میں ایک بلڈنگ بھی نہیں ہوتا، اگر ڈرائیور نہیں ہوتے تو لوگ آج اونٹوں پہ سفر کرنے پہ مجبور ہوتے، اگر آج سائنس دان نہیں ہوتے تو لوگ ابھی تک ملیریا سے مرتے، اگر ڈاکٹر نہیں ہوتے کسی کی آپریشن نہیں ہوتی، اگر استاد نہیں ہوتے تو دنیا میں انسان نظر نہیں آتے، اگر درزی نہیں ہوتے لوگ کپڑے کیسے پہنتے؟
سوچنے کی بات ہے کہ ہم اتنے سارے قربانیوں کو نظر انداز کرکےمعاشروں کے چند نامور شخصیات کےلیے قصیدے لکھتے اور پڑھتے ہیں تو معاشروں کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی ہے۔
ہم ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں مگر موجد کی قربانی نظر انداز کرتے ہیں، ہم آرام دہ سفر کی خواہش رکھتے ہیں مگر ڈرائیور کا استقبال غلیظ الفاظوں میں کرتے ہیں، ہم اچھے کھانوں کی طلب گار ہوتے ہیں مگر بنانے والے کی قدر نہیں کرتے، ہم دھول پہ ناچتے ضرور ہیں مگر بجانے والے کو تعصب اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم جوتے شوق سے پہنتے ہیں مگر مہارت یافتہ شخص کا نام تک یاد نہیں کرتے، ہم امن چاہتے ہیں مگر اپنے محافظ کو گالیاں سناتے ہیں، ہم ماں کے ہاتھوں کا کھانا تو شوق سے کھاتے ہیں مگر ماں کی ایک بات برداشت نہیں کرتے۔
معاشرے کی تعمیر کے لئے ہمیں سب کی قدر کرنا چاہیے ہر شخص باعزت ہے، ہر شخص کی اپنی وجود ہے، ہر شخص کا اپنا معیار ہے، ہر شخص اپنی آپ ایک دنیا ہے، ہمیں لوگوں کو نظر انداز نہیں بلکہ انکی قدر کرنا چاہئیے ، انکی قربانیوں کی قدر کرنی چاہئیے، ان کی قربانیوں کو یاد کرنا چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں