حکومت اور اپوزیشن دوریاں کم نہیں ہوں گی
وزیر اعظم کے لب و لہجے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے۔فاصلوں اضافہ اچانک پیدا نہیں ہوا، اپوزیشن کی جانب سے بھی پھول نہیں برسائے جا رہے تھے۔بد قسمتی سے افتتاحی اجلاس میں ہی دونوں کے درمیان گالم گلوچ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں تیزی آتی چلی گئی۔اپوزیشن نے پہلی بار اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو آسان شکار سمجھا اور طنزیہ جملے استعمال کئے۔”سلیکٹڈ“کی اصطلاح گالی بن گئی، اور آج تک اپوزیشن کی زبان پر موجود ہے۔اگر اپوزیشن اپنے علم اور تجربے سے مثبت کام لیتی تو یقینا اس کی حکمت عملی مختلف ہوتی۔اس کی ایک وجہ پی ٹی آئی کے پاس ایوان میں سادہ اکثریت نہ ہونا تھی۔ مسلم لیگ نون اور پی پی پی کی قیادت نے سوچا دو چار اتحادی ارکان کے ادھر سے ادھر ہوتے ہی نقشہ تبدیل ہوجائے گا۔بی این پی (مینگل) کی علیحدگی کے باوجود صورت حال جوں کی توں رہی۔ ایوان میں حکومت اپنے مشیر خزانہ کو سینیٹر نہیں بنا سکی، مگر اگلے اجلاس میں وزیر اعظم نے ایوان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لے کر اپوزیشن کی پیشقدمی روک دی۔اپوزیشن اپنے نو منتخب سینیٹر یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے میں تاحال ناکام ہے۔اب تو حکومت سینیٹ میں اپنی عددی قلت کے باوجود قانون سازی بھی کر رہی ہے۔ اپوزیشن جن دو چار اراکین پارلیمنٹ کے ٹوٹنے کی آس لگائے بیٹھی تھی،وہ بوجوہ پوری نہیں ہوئی۔اپنی تمام تر ذہانت اور طویل سیاسی تجربے کو بروئے کار لانے کے باوجود حکومت کو گھر نہیں بھیج سکی۔حالانکہ گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والامہنگائی میں تکلیف دہ اضافہ کیش کرایا جا سکتا تھا۔ ذخیرہ اندوز جب چاہتے اشیائے خوردو نوش کی قلت پیدا کرتے رہے۔کھاد کا بحران بھی فصلوں کی بوائی کے مواقع پر جاری رہا۔ بیورو کریسی ابھی تک پی ٹی آئی کی حکومت سے تعاون کے لئے آمادہ نہیں۔نون لیگی درخواست گزار کی عدم موجودگی میں ضمانت قبل از گرفتاری جیسے بعض عدالتی فیصلے بھی حکومتی پریشانی بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے۔ لیکن تھوڑا بہت نقصان نون لیگ کی ساکھ کو بھی پہنچا۔پی پی پی نے اس امتیازی سلوک پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ اس کی وجہ ملزمان یا درخواست گزاروں کا پنجابی ہونا ہے، سندھی ہوتے توانہیں اس قسم کاریلیف نہ ملتا۔ نون لیگ کے تمام رہنما عدالتی ریلیف کے باعث مقدمات کی بر وقت سماعت اور سزا سے محفوظ رہے بلکہ اس تاخیر کو اپنی بیگناہی کی شہادت کے طور پر پریس کانفرنسز میں دہراتے بھی رہے۔جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کیس میں مختصر فیصلہ سنانے کے بعد تفصیلی فیصلہ آنے میں 9ماہ سے زائد تاخیر بھی نفسیاتی طور پر اپوزیشن کے لئے مددگار ثابت ہوئی۔ بعض قانونی ماہرین ٹی وی ٹاک شوز میں بلند آہنگ سے یہ بھی کہتے سنے گئے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔مگرمقدمے کا تفصیلی فیصلہ آتے ہی منظر تبدیل ہوتا محسوس ہونے لگا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی صورت حال میں حکومت اپنے کارڈ کیسے کھیلتی ہے۔کچھ ہفتوں سے شریف فیملی اور لیگی رہنماؤں کو لمبی تاریخیں ملنا رک گئی ہیں، سماعت تیزی سے مکمل ہونے کے امکانات میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے چھوٹے بھائی ضیاء الرحمٰن(سرکاری افسر) کے خلاف چیف سیکرٹری پنجاب کو جے یو آئی کے جلسے سے خطاب کی پاداش میں کارروائی کی سفارش بھی عام آدمی کے لئے غیر متوقع اقدام ہے۔بیشتر قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر بندیال کا تحریر کردہ تفصیلی فیصلہ عدالتی تاریخ میں تا دیر نظیر کے طور پر عدالتو ں کے زیر مطالعہ رہے گا۔ججز کا خود کو مقدس گائے منوانا اب تقریباًناممکن ہو گیا ہے۔ ججز کی سوچ اور رویہ میں مثبت تبدیلی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔اس فیصلے پر جاری بحث کے نتیجے میں عام آدمی کو امید ہوگئی ہے کہ آئندہ وکلاء برادری بھی تیاری کے ساتھ پیشی پر آنا شروع کردے گی اور غیر ضروری التواء کی درخواست کرنے سے گریز کیا جائے گا۔ججز بھی سماعت کی کم ترین وقت میں تکمیل کو ترجیح دیں گے۔غیر متعلقہ سوالات کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔معاشرے کے تمام طبقات کو پیغام مل جائے گا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔قانون کو اپنی مرضی کے معنے پہنانے کی بجائے سب اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں عوام و خواص یہ تسلیم کر لیں کہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ایک ملک کے شہری کو دوسرے ملک پہنچ کر یہ محسوس نہ ہو کہ کسی اجنبی ملک میں آ گیا ہے۔سعودی عرب جیسا مذہب اور روایات پر سختی سے عمل کرنے والاملک یہ کہہ رہا ہے کہ اگر ہمیں اپنی معیشت کو وسعت دینی ہے تو ہمیں رہنے سہنے کا بین الاقوامی سلیقہ اختیار کرنا ہوگا۔ایک جیسے قوانین بنانے ہوں گے۔ایک جیسا عمل کرنا ہوگا۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہاں لاکھوں سیاح آئیں تو ہمیں ان کا کھلے دل سے استقبال کرنا ہوگا، انہیں عزت اوراحترام دیناہوگاجیسی عزت اور احترام بطور شہری انہیں اپنے ملک میں حاصل ہے۔عدالتیں اسی انداز میں کام کریں جیسے ان کے ملک کی عدالتیں کام کرتی ہیں۔قانون سب کے لئے ایک ہو، قانون کی نظر میں سب ایک ہوں۔گویا روم میں رہ کر وہی کچھ کرنا پڑے گا جو روم میں رہنے والے کرتے ہیں۔ جھوٹ اور فریب کو ترک کرنا ہوگا۔دو نمبری اوردوغلہ پن کسی
معاملے میں نہیں چلیں گے۔ملاوٹ سمیت ہر قسم کی فریب دہی بند کرنی ہوگی۔بھینس چوری سے منی لانڈرنگ تک کا کلچر ختم کرنا ہوگا۔عدلیہ کو آئین اور caseکے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے۔ فیصلہ سناتے وقت face نہیں دیکھا جائے گا۔جو طریقہ دنیا کی نظر میں غلط ہے، پاکستان میں بھی اسے درست نہ کہا جائے۔ عدالتوں پر قانون ساز ادارے کے اراکین سنگ باری نہ کریں، قانون کے مطابق عدلیہ کو عزت دیں۔اور عدلیہ بھی کسی جرنیل اور جج کو مقدس گائے نہ سمجھے،ان سے قانون کے مطابق سلوک کرے۔ہر شخص کی دیرینہ خواہش ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی قائم ہو۔ قانون کی حکمرانی نظر آئے۔ عالمی برادری میں عزت سے زندہ رہنے کا واحد راستہ آئین اور قانون کی بالادستی ہے۔ باقی راستے تباہی اور رسوائی کی طرف جاتے ہیں۔آئین کی جگہ نظریہئ ضرورت کو عزت دینے کا انجام یہی ہونا تھا، ہو چکا۔اب تو آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔اب تو مان لینا چاہیئے کہ قانون پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل کرنا لازمی ہے۔لہٰذاتمام ریاستی اداروں کوچاہیے کہ قانون کے مطابق عمل کرنے کا مصمم ارادہ کرلیں،اور اس ارادے پر ہمیشہ قائم رہیں۔


