پاکستانی ایجنسیز کی معلومات کی بنیاد پرکورونا سے متاثرہ شخص کا پتالگایا جاسکتا ہے

حکومتِ پاکستان نے کورونا وائرس کے متاثرین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ملک کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) سے مدد طلب کی ہے۔اس بات کا انکشاف خود پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے چند روز پہلے سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر ٹیلی تھون میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کی شناخت کرنے کے لیے جدید ترین ذرائع کا استعمال کیا جا رہا ہے۔اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں آئی ایس آئی نے زبردست سسٹم دیا ہوا ہے جو ٹریک اینڈ ٹریس میں مدد کرتا ہے۔ وہ تھا تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لیکن اب وہ کورونا کے جو لوگ ہیں ان کے لیے کام آ رہا ہے‘۔لیکن یہ کس طرح سے عمل میں آئے گا؟یہ جاننے کے لیے غیر ملکی میڈیا نے وزیرِ اعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے کورونا وائرس، ڈاکٹر فیصل سلطان سے بات کی۔لیفٹیننٹ جزل فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ ہیں، وہ اس سے پہلے اس ایجنسی میں میں ہی سی سیکشن کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں
ٹریکنگ اور ٹریسنگ سسٹم کیا ہے؟
ڈاکٹر فیصل سلطان نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے پاس موجود معلومات کا استعمال کر کے ایسے تمام لوگوں کا پتا لگایا جارہا ہے، جن میں کسی کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کے ذریعے وائرس منتقل ہوا ہو۔’خفیہ ایجنسیوں اور موبائل کمپنیوں کے پاس لوگوں کی معلومات جیسے کہ ان کا پتہ اور دیگر تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ہم یہ وضح کرنا چاہ رہے ہیں کہ کورونا سے متاثرہ شخص کے آس پاس کس حد تک کورونا وائرس پھیل چکا ہے۔’جس کے لیے ہم اس کے آس پاس موجود لوگوں کی معلومات اکٹھا کر رہے ہیں اور ہاٹ سپاٹ بننے سے پہلے ہی اسے روکنا چاہ رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’لوگوں کے پتے اور فون نمبر کے ذریعے متاثرہ افراد کو تلاش کیا جائے گا۔ جس کے بعد ان میں کورونا وائرس کی تصدیق بھی کی جائے گی۔ جس کے بعد یہ معلومات وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں کو بھی منتقل کی جائیں گی۔‘اس بارے میں ایک واضح خدشہ لوگوں کی معلومات عام ہونے سے متعلق ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو اس بارے میں معلوم بھی نہیں کہ ان کی معلومات خفیہ ایجنسی کے ذریعے آگے منتقل کی جا رہی ہیں۔اس بارے میں جب ڈاکٹر فیصل سے پوچھا گیا کہ خفیہ اداروں کے بجائے مقامی پولیس کی مدد کیوں نہیں لی گئی؟اور کیا حاصل ہونے والی معلومات کا صحیح استعمال یقینی بنایا جائے گا؟تو انھوں نے کہا کہ ’مقامی پولیس اور ادارے بالکل ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ یہ اطلاعات جمع کر کے انھی کو پہنچائی جائیں گی۔ جس کے بعد ادارہ صحت اور دیگر ادارے اس کا استعمال کرسکیں گے۔ اور یہ معلوم کرسکیں گے کہ کورونا وائرس نے کن علاقوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔’جہاں تک لوگوں کی معلومات باہر آنے کا خدشہ ہے تو ایسا نہیں ہے کہ ہم کوئی خفیہ آپریشن چلا رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ یہ معلومات حساس ہیں اور ان کا استعمال غلط طریقے سے ہوسکتا ہے۔ ہم خفیہ اداروں سے صرف تکنیکی مدد حاصل کر رہے ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں