منشیات کی اذیت کرونا سے بدتر ہے

تحریر:جاوید بلوچ
آمنہ کے چار بیٹے ہیں جن میں سے تینوں بڑے بیٹے منشیات کے عادی ہیں کئی بار چوری کے کیس میں گرفتار بھی ہوچکے ہیں، ان کے بیٹے اس بوڑھاپے میں بجائے انکی خدمت کرنے کے ان پر بوج بنے ہوئے ہیں، آمنہ کہتی ہے ”میں ایک بیوہ ہوں اللہ سے میرا بس یہی دعا ہے کہ دشمن کے بچوں کو بھی کبھی نشئی نہ بنانا، نشہ گھروں کو اجاڑ دیتا ہے اور سب کچھ برباد کردیتا ہے،” بلوچستان میں پسماندگی، کرپشن اور بدانتظامی جیسے کئی دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ منشیات کا عام ہونا اور خصوصاً کم عمر بچوں اور نوجوان کا اس میں مبتلا ہونے میں بہت اضافہ ہورہا ہے، اب تو کئی علاقوں میں خواتین بھی منشیات استعمال کررہی ہیں، بلوچستان کے منشیات متاثرین اضلاع میں گوادر بھی شاملہے۔گوادر کے نوجوان سوشل ایکٹیوسٹوں نے ضلعی اداروں کے ساتھ ملکر ایک مہم کا بھی آغاز کیا تھا اور ایک بہت ہی بڑی ریلی بھی نکالی تھی مگر انہی نوجوانوں میں شامل عابد بلوچ (فرضی نام) کے مطابق وہ سب محض فوٹو سیشن کے لئے تھا اور اس سے نوجوانوں کو بھلا کر خاموش کرانا تھا کہ وہ مزید کچھ نہ کرسکیں، عابد بلوچ کے مطابق منشیات کے کاروبار میں بڑی با اثر شخصیات ملوث ہیں جو اداروں کو خریدنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تب ہی تو کوئی کچھ نہیں بول سکتا۔
آمنہ بی بی لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشان ہیں لیکن ان کے لیے لاک ڈاؤن اس قدر اذیت ناک نہیں ہے جتنی منشیات، وہ کہتی ہیں ”کرونا تو اب آئی ہے مگر منشیات کی اذیت ہماری نسلوں کو برباد کررہی ہے، ہمیں کرونا سے ڈر نہیں وہ ایک بار مار دیتی ہے انسان مرجاتا ہے، منشیات کا سانپ اگر گھر کے ایک فرد کو ڈس لے پورا خاندان برباد ہوجاتا ہے، وہ برادری اور محلے کی نظروں میں روز روز مرتے ہیں ”
منشیات کے تدارک اور بحالی کے ایک سینٹر ‘نگور مونڈی سینٹر اور کلینک’ کے ڈائیریکٹر نصیر نگوری کے مطابق گوادر کے مختلف علاقوں کلانچ، نگور، دشت اور گوادر سے بڑی تعداد میں مختلف عمر کے منشیات کے عادی افراد ان کے ہاں اپنا علاج کروا رہے ہیں مگر زیادہ تر تعداد اٹھارہ سال کے کم عمر نوجوانوں کی ہے، یہ افراد شیشہ، کرسٹال، تریاک جیسے کئی اور منشیات میں ملوث ہیں۔مندرجہ بالا بیان شدہ علاقوں سے ایک بڑی تعداد میں خواتین بھی منشیات میں ملوث ہیں مگر خواتین کے لئے علیحدہ کوئی
بحالی کا مرکز نہیں ہے اور خواتین کو ان سینٹرز میں نہیں لایا جاتا، گوادر سے چند سماجی سرگرم نوجوانوں نے کلاچ کے علاقے میں جاکر منشیات کے عادی افراد کے گھر والوں سے بات کی جن میں اکثریت منشیات کے عادی کم عمر بچے اور نوجوان تھے جو نشہ نہ ملنے پر چوری کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں گوادر سے سیاسی و مذہبی شخصیت مولانا ہدایت الرحمن نے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ منشیات کی روک تھام کے لئے ادارے کام نہیں کررہے ہیں بلکہ عوامی منتخب نمائندے بھی با اثر شخصیات سے اپنے تعلقات اور ووٹ بینک کو بچانے کی خاطر خاموش ہیں، وہ کہتے ہیں ” عوامی نماہندوں کو ووٹ چاہیے،کچھ بڑے لوگوں کاکام منشیات ہے ان کو کیسے ناراض کرینگے،ناراض کرینگے تو ووٹ خراب ہونگے،اس لیے منشیات کا خاتمہ ایم پی اے اور ایم این اے کی ترجیحات میں نہیں ہے،انتظامیہ بھی نہیں چاہتی،لیکن منشیات فروشوں کا سو فیصد انتظامیہ کو معلوم ہے” مولانا صاحب تمام اداروں کا نام لے کر کہتے ہیں کہ یہ سب منشیات کے جرم میں برابر کے شریک ہیں عابد بلوچ کے مطابق اداروں کو اطلاع دینے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک تو وہ ایکشن ہی نہیں لینگے اگر ایکشن لیں تو بھی دوسرے دن منشیات فروش باہر نکل جاتے ہیں، وہ کہتے ہیں ”سب کو معلوم ہوکر بھی کوئی نہیں بولتا، نوجوان نسل تباہ ہوتی جارہی ہے کسی کو اس سے کیا، ہاں جنھیں تصاویر میں گوادر اور بلوچ ترقی کرتا دیکھنے ہیں وہ تصاویر بنا کر خوش ہورہے ہیں ”مولانا ہدایت الرحمن بھی مانتے ہیں کہ منشیات کے کاروبار میں با اثر لوگ ملوث ہیں اس لئے کوئی بھی شخص بولنے اور نشاندہی کرنے کے لئے تیار نہیں، وہ مزید کہتے ہیں ” منشیات کے خلاف بحالی سینٹر قابل تحسین ہیں مگر روک تھام کے لئے زیاہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے”منشیات سے متاثرین افراد کا کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں جس سے اصل حقائق کا پتہ چل سکے، حکومت بلوچستان کے ایک وزیر اور حکمران جماعت کی اہم شخصیت سے اس حوالے سے ان کا مؤقف اور سرکاری اعداد و شمار جاننے کیلئے رابطہ کیا گیا مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔منشیات کا ناسور جنگل کی آگ طرح بلوچستان پھل رہا ہے چند بحالی مراکز اگر ہیں بھی تو وہ خواتین کے لئے نہیں اگر تصاویر سے ہٹ کر گوادر اور بلوچستان کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو منشیات کا خاتمہ ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں