تعلیم کی اہمیت اور بلوچستان

تحریر: بلال بلوچ
تعلیم کی اہمیت ازل سے ابد تک رہے گی خواہ وہ دینی تعلیم ہو یا پھر سائنسی، سماجی یا فنی تعلیم ہمیشہ سے ہی کسی بھی قوم و ملک کی ترقی اور فلاح کا ضامن رہا ہے اور شعوریافتہ قوموں کا ہمیشہ سے ہی اولین ترجیح رہا ہے تعلیم چاہے کسی بھی ذریعے سے اور کسی بھی طرز کاحآصل کیا جائے وہ ہمیشہ سے سماج میں اہمیت کا حامل رہا ہے تعلیم کی اہمیت کو اگر دین کے پہلو سے دیکھا جائے تو تعلیم و علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سب سے پہلے لفظ اِقرا (پڑھ) کا نزول فرمایا۔
حدیث نبوی ہے
”جاہلوں کے درمیان طالب علم اس طرح ہے جیسے مردوں کے درمیان زندہ”
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و علم کی وجہ سے علم حاصل کرنے والے (طالب علم) کو معاشرے میں زندہ لوگوں سے مماثلت دی جبکہ جاہل کو مردہ۔
اخلاقی تعلیم بھی انسان کے اندر خدا پرستی، عبادت، محبت، خدمت خلق، ہمدردی، اور سیاسی اور سماجی شعور پیدا کرتا ہے۔ آج کے دور میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اکیسویں صدی کے تیز ترین دور اور ٹیکنالوجی بے شمار ترقی سے بخوبی لگا سکتے ہیں ہاں ایک طرف تو ا آئے روز نئے ایجادات اور تجربات کے دوڑ لگا ہے دنیا میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگی ہے. مگر بدقسمتی سے بلوچستان تعلیم جیسے اہم شے سے محروم ہے یہ محرومی شعوری طور پر ہے یا لاشعوری طور پر، یہ ہمیں ایک اور بحث کے طرف لے جاتا ہے بلوچستان جو کہ رقبے کے لحاظ ملک کا سب سے بڑا اور خطے کا امیر ترین ہونے کے باوجود سماجی مسائل میں گیھرا ہوا ہے جس کے وجہ سے ہر طرف مایوسی اور محرومی ہی نظر آتا ہے. بلوچستان کے مسائل اور محرومیوں کا ذکر ایک تحریر میں بلکل ممکن ہی نہیں
بلوچستان کا شرخواندگی صرف 46 فیصد ہی ہے بلوچستان کا کل آبادی 12.34ملین ہے جن میں 2.5 ملین یعنی 25پچیس لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں جب کسی صوبے کے 25لاکھ بچے اسکول نہیں جا پاتے تو وہاں سماجی و معاشرتی مسائل کس حد تک بڑھ سکتے ہیں اسکا اندازہ آپ صوبے کے حالات سے بخوبی لگا سکتے ہیں بلوچستان میں کل اسکولوں کی تعداد 13845 کے قریب ہے ان میں پرائمری اسکول 1127، مڈل اسکول 1271 اور صرف 947 ہائی اسکولز ہیں۔ اتنے بڑے صوبے میں اتنے کم تعداد سکول ہونے کے باوجود بھی تمام اسکولز فعال نہیں۔ 13845 اسکولوں میں 6228 اسکول ایسے ہیں جو عمارت کے محرومی کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی ضروریات یعنی پانی.بجلی. باتھروم، کتاب، بلیک بورڈ جیسے سہولیات اور بعض میں تو اساتذہ کرام ہی تعینات نہیں۔ تقریباً 37 فصید سکول ایک کمرے پر محیط ہیں اور 14 فیصد اساتذہ بغیر سکول جائے تنخواہ وصول کرتے ہیں تعلیم و علم کیلئے دیگر صوبوں کی طرف جانے والے طلباء و طالبات کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی مایوس کن ہے جسکی مثال لمز یونیورسٹی لاہور ہے جہاں پورے ملک کے 7000 ہزرا طلبہ میں سے بلوچستان میں سے صرف 15 یا 20 طالب علم زیر تعلیم ہیں۔
عورت کسی بھی سماج میں آنے والی نسل کے سیاسی سماجی اور معاشرتی ترقیاتی کی ضامن ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں صرف 20ہزرا لڑکیاں ہی بمشکل ہائی اسکول جاتی ہیں اور شر خواندگی مردوں میں 37 فیصد اور خواتین میں 15 فیصد ہے۔ تعلیم بحران کے ہوتے ہوئے نہ بلوچستان ترقی کے راہ پر چل سکتا نہ لوگوں میں شعور بیدار اجاگر ہو سکتا ہے بلوچستان کا ترقی کا خواب اس وقت تک ادھورا ہے جب تک یہاں کا تعلیمی معیار بہتر نہیں ہوتااس کے لیے بلوچستان کے سیاسی وسماجی اساتذہ کے ساتھ ساتھ ہر فرد ء ملت کو فکر مند ہونا چاہئے تاکہ آنے والے نسلوں میں علم و تعلیم کی فروغ اور بلوچستان کو پسماندگی سے نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

تعلیم کی اہمیت اور بلوچستان” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں