کرونا والا یوم مزدور

جاوید بلوچ
"مزدور ھوں، محنت کا صلہ مانگ رھا ھوں
حق دیجئے، خیرات نہیں چاھیے مجھ کو
مُردوں کی طرح جس میں، مرا باپ جیا ھے
وہ صورت حالات نہیں چاھیے مجھ کو”
بقول شاعر مزدور سرمایہ دارانہ نظام کی قائم کردہ اصولوں اور سماجی تفریق میں ہمیشہ سے ایک اچھوت، کم تر اور قابل رحم سمجھا جانے والا حقیر مخلوق مانا جاتا ہے، اسے اس کے محنت کا معاوضہ بھی ایسے دیئے جاتا ہے جیسے خیرات، وہ ہمیشہ سرمایہ دارانہ طاقت جس کی گھٹ جھوڑ مذہب، بادشاہ اور اس کی مشینری چلانے والے اشرافیہ ہیں اور جنھیں جدید لفظوں میں بزنس مین، کاروباری حضرات وغیرہ کے نام دیئے گئے ہیں کا احسان تلے دبنے والا بے بس اور قدرت و حالات کا مارا بدنصیب سمجھا جاتا ہے۔
1886 میں شکاگو امریکہ کے مزدوروں نے اس استحصالی جبر کے نظام کے خلاف آواز بلند کی اور احتجاج کیا، ظاہر ہے استحصالی نظام کے لئے مزدور کو ان کے حقوق دینا ناجائز اور ناقابل تسلیم ہوتا ہے تو وہاں بھی حکومتی تعاون کے ساتھ مزدور تحریک کو کچلنے کے لئے طاقت کا وحیشیانہ استعمال کیا گیا، مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں، بہت سارے گرفتار ہوکر جیلوں میں ڈھالے گئے اور کئی پھانسی پر لٹکائے گئے، ایک خون ریز انقلاب کے بعد تب جاکر مزدور کے حقوق تسلیم کرلئے گئے مگر یہ حقوق آج تک ہر معاشرے میں سرمایہ داروں کے گلے میں پھنسے نوالے کی طرح ہیں نہ ہضم ہوتے ہیں اور نہ ہی باہر نکلتے ہیں۔
بلوچستان جیسا خطہ جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اس مزدور طبقے کے لئے آج بھی شکاگو تحریک کے بعد دنیا بھر میں مانے گئے مزدور حقوق سے محروم ہے، یہاں کے وسائل کا مالک مزدور کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے، پینے کے لئے صاف پانی، بچوں کے لئے بنیادی تعلیم و صحت اور دو وقت کی روٹی تک کے لئے بے بس و بے کس ہے، شرح نا خواندگی سب سے اوپر اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، روزانہ کی بنیادطپر آمدہ خبروں میں بلوچستان سے کوئلے کی کانوں میں مزدوروں کی اموات جیسے معمولی سی بات ہو، نہ یہ خبریں الیکٹرانک میڈیا میں زیر بحث چلتی ہیں جس سے زمہ داران حکومتی اداروں سے جواب طلب کیا جائے اور ناں ہی اخبارات کی شے سرخیوں میں جگہ لے پاتی ہیں، مزدور کان کن ملکی معیشت اور صنعتوں کا پہہ چلا نے کے لیے دن رات سخت اور اذیت ناک محنت کرکے کبھی کان میں سلننڈر پھٹنے سے تو کبھی دم گھٹنے سے یا کبھی کبھار تو جس کان میں دو وقت کی روٹی کے لئے مزدوری کر رہے ہیں وہیں دھنس کر مرجاتے ہیں بلکیں یوں کہیں مارے جاتے ہیں۔
یہ کان کن مزدور اور ان کے گھر والے مرنے کے بعد بھی نا کسی سرکاری الاؤنس سے مستفید ہوتے ہیں اور نا ہی مالکان کی طرف سے کسی کمک و امداد کا، بس جو آخری راستہ باقی رہتا ہے وہ یہ کہ باپ کی طرح ان کا بیٹا بھی یہی پیشہ اختیار کرکے کسی دن بے موت مشقت کرتے کرتے کسی حادثے کا شکار ہوکر مر جائے۔
ان کان کن مزدوروں کی طرح بلوچستان ایک وسیع ساحل کا بھی مالک ہے جہاں کے لاکھوں لوگ سمندری زندگی اور مائی گیری سے وابستہ ہیں مگر ان کی حالت بھی بدتر ہیں بہتر نہیں، اس متعلق گزشتہ دنوں ایک کالم روزنامہ انتخاب میں پبلش بھی ہوا ہے جو بہت ہی مشکل ہے کہ بلوچستان کے حکمرانوں نے پڑھا ہو اگر پڑھا بھی ہوگا تو سنجیدہ نہیں لیا گیا ہوگا کیونکہ مائی گیر مزدوروں سے متعلق ایک بل بلوچستان اسمبلی میں پڑا پڑا سڑھ رہا ہے مگر نمائندوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہے۔
گزشتہ سال یکم مئی کی مناسبت سے ہم کچھ دوستوں نے گوادر میں ایک غیر سرکاری سماجی ادارہ جیوز گوادر کے ماہانہ ادبی پروگرام بعنوان یکم مئی اور ازم ساچ کی سوشل میڈیا پر شائع کرنے کے لئے ایک رپورٹ بنائی جو اس وقت میرے سامنے ہے اس رپورٹ میں جہاں چائلڈ لیبر، مائی گیر مزدور اور ان پر قانونی و طبی اثرات کے موضوعات پر ماہرین کے ساٹز شامل تھے وہیں ایک ساٹ ایک ایسے مزدور کا تھا جو سرکاری ادارہ محکمہ بلدیات کے ایک خاکروب مزدور کا بھی تھا، اس مزدور کی باتوں کو سن کر حیرانگی ہوگی کہ وہ ایک سرکاری ادارے میں کنٹریکٹ بیس پر کام کر رہا ہے یا کسی امیر شخص کے گھر ذاتی ملازم ہو۔۔۔
ضلعی انتظامیہ سرکاری خزانے سے انھیں مہینے کا صرف سات ہزار روپے ادا کرکے مکمل ڈیوٹی لیتے ہیں جو آج سے کئی برس پہلے شکاگو تحریک سے پہلے بھی شاید سوچ کر شرمندگی و حیرانگی محسوس ہوتی ہے، اسے انسانی حقوق پر ڈھاکہ کہے یا کرپشن کا برج خلیفہ؟
اسی طرح اگر مائی گیر مزدوروں کی قانونی شناخت سے محروم ان کے حقوق پر اگر بات کی جائے یا نمائندگان و حکمرانوں سے شکایت کی جائے تو انتہائی فضول سا محسوس ہونے لگے گا کہ خوامخواہ وقت ضائع کیا جارہا ہے کیونکہ عام مزدور اور چائلڈ لیبر سے متعلق سخت قوانین کے موجود ہوتے ہوئے بھی عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے، قوم کے مستقبل معصوم بچے اپنی بوج اٹھانے کی عمر سے پہلے جسمانی، جنسی اور ذہنی تششد کا شکار ہیں۔
یہ بچے تشدد اور بوج سہہ کر کل کو معاشرے کے لیے معمار بننے کی بجاائے معاشرے سے انتقام لینے والے بنے گیں اور چور، ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد کی صفوں میں اپنے لیے جگہ تلاش کرینگے، بہت کم تعداد میں اپنے لیے کوئی ہنر سیکھ کر روزگار کمائینگے ویسے بھی یہ کام بھی حکومتی زمہ داری ہے کہ ٹیکنیکل ادارے بنا کر بچوں کو محنت اور مشقت سے بچا کر انھیں پہلے اچھی تعلیم دی جائے،
مزدور کے لیے پہلے سے حالات انتہائی کٹھن ریے ہیں اب اس کرونا وباء کے دنوں میں ان کے لیے شکاگو تحریک کی یادیں تازہ ہورہی ہیں فرق صرف یہی ہے کہ وہاں 1886 کو پولیس اور سرکار نے گولیاں چلا کر اور پھانسی پر لٹکا کر ان کی جانیں لی اب کی مزدور روزگار کی تمام زرائع بند دیکھ کر خود کشیاں کر رہے ہیں، اس وباء اور لاک ڈاؤن میں جہاں ہر شعبہ زندگی متاثر ہے وہیں سب سے زیادہ متاثر مزدور طبقہ ہے جو پہلے روز صبح اٹھ کر یا تو اپنی روزگار پر نکلتا تھا یا کسی چوک چوراہے پر بیٹھا مزدوری کے لئے کسی کی راہ دیکھتا ہوتا تھا مگر اب اپنے گھر میں فاقہ کی حالت میں محصور ہوگیا ہے۔
چونکہ ہم مردانہ معاشرے کا شہری ہیں اس لیے ہر جگہ عورت کی کردار اور خدمات کو خالی جگہ مییں چھوڈ دیتے ہیں اس لیے شاید یہاں بھی ان کا ذکر تک نہیں ہوا مگر اس کرونا سیزن میں وہ خواتین مزدور بھی متاثر ہیں جو کسی بڑے میم صاحبہ یا صاحب کے گھر ملازمہ تھیں اور اب انھیں کرونا لگنے کی ڈر سے اپنے گھر کے چوکٹ پر بھی کوئی کھڑا نہیں ہونے دیتا وہ ماسی، خالہ تو روزانہ کی بنیاد پر کام کررکے شام کو کچھ بچا ہوا کھانہ اپنے بچوں کے لیے لے جاتی تھی اب ان کے بچوں کا کیا؟
ایسے حالات میں اس کرونا وباء نے نہ صرف مزدوروں پر 1886 کی تشدد کی یاد تازہ کی بلکیں پرانے زخموں پر نمک چڑھایا اور آج کے چالاک حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے لیے یہ سسہولت دی کہ اب وہ خیرات دیں اور حقوق تلف کریں اور کوئی نام نہاد سوشلسٹ، مزدور کسان و مائی گیر دوست انسانی حقوق کا کارکن چیخ تک نہ مارے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں