اٹھارویں ترمیم یا سیاسی مفاد
تحریر : مدثر محمعود
ان دنو ملک میں اٹھارویں آئینی ترمیم پر بحث طول پکڑ رہی ہے۔ پاکستان آئینی میں اٹھاوریں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی سے منظور کی گئی تھی ۔اس وقت ملک میں پیپلپز پاڑٹی کی حکومت تھی اور آصف علی زرداری صدر اور سید یوسف رضاگیلانی وزیراعظم تھے ۔ 19 اپریل 2010 کو صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد یہ ترامیم آئین کا حصہ بن گیئں۔
اس وقت پاکستان کے مختلف حلقوں اور افراد نے آئین میں ترامیم کے لیے 988 سفارشات ارسال کی تھیں ۔ بعض مبصرین کے مطابق صوبوں نے مرکز سے اختیارت تو لے لیے لیکن خود انہوں نے مقامی حکومتوں کو وہ اختیارات منتقل نہیں کیے جس سے بہت زیادہ پیپچیدگیاں پیدا ہوئیں اور مبصرین کے مطابق صوبائی خود مختاری کا مقدمہ بھی کمزور ہوا ۔
اٹھارویں ترامیم کے تحت صدر کو حاصل تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلمان کو منتقل کردیے گئے ۔. چونکہ وزیراعظم قائد ایوان ہے لہٰذا وزیراعظم کے پاس اہم اختیارت آگئے ۔ اس ترامیم کے زریعے جنرل ضیاء الحق کے دور میں کی گئی تمام آئینی ترامیم کا خاتمہ کردیا گیا ۔
جبکہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 17 ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونیوالی تمام تبدیلیوں کا بھی جاتمہ کر دیا گیا تھا ۔ اٹھاوریں ترمیم کے تحت ملک کے شمال مغربی سرحدے صبوبے کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ رکھا گیا
اس ترمیم کے تحت وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دئے جانے جس سے صوبے زیادہ اختیار ہوگئے ۔
صوبوں کی مختاری بجامگر خودمختاری کے نام پر ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے دست بردار ہی ہو جائے ایسا کہیں نہیں ہوتا ۔ ملک میں اٹھارویں ترمیم آنے کے بعد بڑا پمانے پر تبدیل منظر عام آرہی ہیں ۔ ایک رپوٹ کے مطابق پاکستان کی زراعت کو تباہ کرنے کے لئے اٹھاوریں ترمیم نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے
امریکا جیسے ملک میں بھی محکمہ زراعت مرکزی حکومت کے پاس ہے جو ریاستی حکومتوں کے ساتھ ملکر زراعت سے متعلق پالیسیاں بنائی ہے اٹھاوریں آئینی ترمیم کے زریعے پاکستان کے آئیین کی شکل ہی بدل کر دکھ دی گئی ۔ اور یہ سوال متعد حلقوں کی طرف بار بار اٹھایا جاچکا ہے کہ کیا وہ اسمبلی اس بات کی آئینی مینڈیٹ رکھتی تھی یا نہیں اس ترمیم کے زریعے صوبوں نے اپنے اختیارات میں بے حد اضافہ تو کر لیا لیکن اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی نہیں بنایا جس سے یہ سوالات جنم لینے لگئے ہیں کہ یہ سب کچھ زاتی مفادات کی خاطر تو نہیں کیا گیا تھا ۔ اب اٹھارویں ترمیم کے مطابق صوبائی حکومت وفاق یا کسی اہکار کو اپنی اختیار دیتی ہے صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوادڈ سے کم نہیں کیا جاسکے گا ۔مگر موجودہ دوع حکومت میں وفاق اور صوبوں کے درمیان عدم اتفاق نویں این ایف سی ایوادڈ کی آئینی مدت بھی ختم ہوگئ اٹھاوریں ترمیم کی سب ست بڑی خرابی یہ ہے کہ ایسے سیاسی مقامصد کے لیے آئین میں شامل کیا گیا ۔اس کا مقصد ہرگز وفاق کو مضبوط کرنا نہیں تھا یہ مقصد ہوتا تو اس میں یہ سقم نہ رکھا جاتا کہ ارکان پارلمیینٹ اپنی رائے ہی نہ دے سیکیں۔
موجودہ دور حکومت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد فواد چویدری کو اپنی وزارت اطلاعات ونشریات کا قلمدان ملا تھا تاہم بعد میں ان سے یہ وزارت واپس لے کر فردوس عاشق اعوان کو معاون خصوصی اطلاعات بنا دیا گیا تھا ۔
فردوس عاشق اعوان کی تقروی پر فواد چوہدری نے تنقید بھی کی تھی اور کیا تھا کہ منتخیب لوگوں کو غیر متخیب لوگوں سے تبدیل کرنا ٹھیک نہیں ۔
مگر ایک سال کے عرصہ گزانے کے بعد یایعنی موجودہ وقت میں سابق معاون خصوصی اطاعات ونشریات فردوس عاشق سے بھی وزارت واپس لے کر لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو معاون خصوصی تعینات کردیا گیا ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں دو بار معان خصوصی کی وزارت کی تبدیلیاں کی گئی ہیں اٹھاوریں ترمیم پارلمنٹ میں بحث کے بغیر منظور ہوئی ۔
دنیا بھر میں آئینی ترامیم سے پہلے سالہاسال تک اس معاملے پر بحث کرائی جاتی ہے ۔ جبکہ ہمارے ہاں بغیر کس بحث کے ہی ترمیم دی جاتی ہے ہمارے ملک میں اتنی بڑی تبدیلی لائی گئی قانون سازی کے لیے پارلمان سپریم ادارہ ہے اٹھاوریں ترمیم پر کئی پارٹیوں کے تحفظات آرہے ہیں ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کی تشریح میں یہ تحفظات ختم ہوجائیں ۔
چیئرمین پیپلزپاڑٹی بلاول بھٹوزردادی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وفاق اٹھارہویں ترمیم کی غلط تشریح کرکے اپنی زمہ داری سے دست بردار نہیں ہوسکتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلی بارا ایسا ہوا ہے کہ وفاق اور وزیراعظم صوبوں سے اظہار لاتعلقی کررہے ہیں اٹھارہویں ترمیم صوبوں کو اختیار دیتی ہے وفاق کو راہ فرار نہیں دیتی ۔ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق کا کوئی کردار نہیں تو پھر ملک میں نیشنل ڈیزاسڑ مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے )کیوں ہیں ؟
ہم وطن ہمارے جاگیردار و سرمایہ دار یا پھر غریب ہیں
شاہ وشاہ گروں کے معاملات بھی یہاں عجیب ہیں ۔۔