کورونا، غربت بےشعوری اور بلوچستان

سعید مری
؎چین کے شہر وہاں سے پھلنے والی وبا کرونا پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔دنیا کا ہر ملک تقریبا اس وبا سے متاثر ہوا۔پوری دنیا میں اس وقت 32 لاکھ قریب لوگ اس بیماری کا شکار ہو ئے ہیں اور 2 لاکھ 32ہزار لوگ اس وبا سے ہلاک ہوگئے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں اس وبا میں اموات کی تعداد زیادہ ہے جو حیران کن بات ہے ۔اب تک یہ وبا اٹلی میں 27ہزار سے زائد، اسپین میں 24ہزار کے قریب، برطانیہ میں 20 لوگوں کے لگ بھگ ، امریکہ میں 10 ہزار، ایران میں تقریبا 6 ہزار اور چین میں 4 ہزار 6 سو ہلاکتیں رکارڈ ہوچکے ہیں ۔ قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ اس وبا کے بین الاقوامی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پہلی بار بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی ہے۔
پاکستان میں کروانا وبا کی موجودہ صورتحال اور حالیہ اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان میں کل 16ہزار سے زائد لوگ اس بیماری کا شکار ہو ئے ہیں۔پنجاب میں 6ہزار 340 افراد ،سندھ میں 6 ہزار 53 ،خبیرپختو میں 2ہزار 313، بلوچستان میں 1ہزار 49،گلگت بلستان میں 339،اسلام آباد میں 313 اور آذاد کشمیر میں 66 افراد اس بیماری کا شکار ہو ئے ہیں۔ کروانا وائرس سے اب تک پاکستان میں 361 اموات ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ جبکہ 4ہزار 105 افراد صحت یاب بھی ہوگئے ہیں ۔
جسے ہی کروانا وبا پاکستان میں پہنچا۔ اس وبا نے ہلچل مچائی ۔ ایک طرف پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی ہوئی ہے ۔ جس سے عوام نے بہت سے توقعات وابسطہ کیے تھے۔ دوسری طرف پاکستان میں صحت کا نظام بھی تسلی بخش نہیں ۔ اور نہ ہی پاکستان میں بین الاقوامی طرز ہسپتال موجود ہیں ۔ موجودہ حکومت تمام غلطیاں ماضی کی حکومتوں پہ ڈالتے رہے ہیں۔
جسے جسے کروانا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ حکومت نے سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا۔ جس میں تمام اسکول، کالجز یونیورسٹز شامل تھیں۔اس کے بعد وفاق سمیت تمام صوبوں نے لائک ڈاون کا اعلان کر دیا ۔لائک ڈاون ہر شہر اور ہر صوبے میں مختلف تھا۔کہیں زیادہ تو کہیں کم،کہیں لائک ڈاون میں سختی تو کہیں نرمی، کہیں بالکل کاروبار بند تو کہیں جزوی طور پر دوکانیں کھول دی گئی۔
صوبہ بلوچستان میں بھی لائک ڈاون میں نرمی تو ضرور ہے لیکن اس صوبے میں اکثریت آبادی غریب طبقے کا ہے۔یہ ایسا طبقہ ہے جو روزانہ کی بنیاد پہ کام کرتا ہے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ لائک ڈاون کی وجہ سے یہ طبقہ نہ صرف پریشان ہے بلکہ ذہنی دباؤ کا بھی شکار ہے ۔ اس طبقے میں ریڑی بان ،دکانوں کے مزدور۔ ٹرزنسپورٹ کے مزدور،درزی ۔ موچی، حجام اور یہاں تک کہ پرائیویٹ سکول کے استاتذہ بھی شامل ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ اس وبا کو روکنے کے لیے ضرور ایسے اقدامات اٹھائے جس سے بیماری نہ پھیلے۔لیکن یہ بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ اسے لوگوں پہ نظر رکھے جو بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔
یہ انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے، تو اس لئے لائک ڈاون کا بنیادی مقصد سماجی فاصلہ ہے ۔لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں تو لوگوں کی بڑی تعداد اس وبا کو ماننے سے انکار ی ہیں ۔بےشعوری کا یہ عالم ہے کہ باض لوگ سماجی فاصلہ اختیار ہی نہیں کرتے۔چونکہ تعلیمی ادارے بند ہیں طلبہ بڑی تعداد میں گلیوں میں کھلتے نظر آتے ہیں۔اس طرح کاروبار بند ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں میں ہوتے ہیں ۔ گھروں میں ٹولیوں کی شکل کھیلتے نظر آتے ہیں جو کہیں گھنٹوں تک جاری و ساری رہتا ہے ۔ جو کہ بالکل سماجی فاصلہ کے برعکس ہے ۔
بلوچستان کے شہر یوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر حکومت نے لائک ڈاون کیا ہے، تو یہ وبا کے روک تھام کیلئے ہے ۔ شہریوں کو لائک ڈاون پہ عمل درآمد کرنا چاہیے ۔ لیکن سخت لاک ڈاؤن کے باعث بہت سے گھروں میں کہیں دن چولہے نہیں جلتے ۔ حکومت ان متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کرے۔ یہ ہر فرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ سماجی فاصلہ کی اہمیت کو سمجھے، تاکہ اس وبا سے بچا جا سک۔

اپنا تبصرہ بھیجیں