عالمی یوم صحافت پاکستانی میڈیا کتنا آزاد؟
تحریر،منور شاہوانی
آج 3مئی پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم صحافت کی دن کے طور پر منایا جارہا ہے،سب سے پہلے میں ان شہداء کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے صحافت کی حرمت کیلئے جان دے کر بھی اس پرچم جو سرنگوں نہ ہونے دیا اور ان صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے لاٹھیاں کوڑے کھا کر بھی حق و سچ کی آواز بلند کیا اس دن کو منانے کا مقصدعالمی سطح پر صحافتی آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات کا حصول بھی ہے جس میں آزادی صحافت میں پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کا سدباب کیا جاسکے،اس دن دنیا بھر میں صحافیوں سے وابستہ تنظیموں کے جانب سے صحافیوں کی حقوق کیلئے احتجاجی مظاہرے، سیمینارز، وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے، لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوگا اس کی وجہ دنیا بھر میں پھیلنے والاوباء کوروناو ائرس ہے جس کے باعث احتجاج مظاہرے، سیمینارز اجتماعات پر پابندی عائد ہے، لیکن اس بار یہ سب نہ ہونے سے صحافیوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اس قابل بھی صرف اس ایک دن باہر نکال کراحتجاج اور سمینارز کے زریعے صحافیوں کے حقوق مانگنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے،، اقوام متحدہ نے 3مئی 1993کو باقاعدہ طور پر آزادی صحافت کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا اس دن تمام دنیا کی صحافتی برادری اس بات کا تجدید عہد کرتے ہیں کہ کسی بھی پر تشدید عناصر یا ریاستی وباء جیسے بغیر آزاد سچی اور زمہ دارانہ اطلاعات عوام تک پہنچنے کیلئے لڑتے رہیں گے،جس کیلئے ان جان دینی ہی کیوں نہ ہو،پاکستان میں صحافیوں کے تحفط کئلئے کوئی ٹھوس اقدانات نہیں اٹھائے گئے ہیں جس کی وجہ سے صحافی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، صحافی یہاں غیر یقینی کا شکار ہیں ہمیشہ ان کو پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں نہ صرف مسلح تنطیموں کی جانب سے بلکہ بااثر افراد کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،یہی وجہ ہے کہ یہاں صحافیوں کو کچھ لکھنے اور بولنے سے پہلے اپنے بچوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ پھر اپنے لفظوں میں نرمی لانے کیلئے دماغی ڈکشنری پر زور دینا پڑتا ہے تاکہ مقتدر حلقے ناراض نہ ہوں اور ہمیں زندگی کی چند لمحے میسر ہو،خصوصا پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان میں صحافت میں آنا خودکشی کے مترادف ہے،کچھ برس قبل یہاں ہر روز دھماکے اور فائرنگ روز کے معمول تھے،جن کے کوریج اور بریکنگ نیوز کے چکر میں کئی صحافی خود ہی بریکنگ نیوز بن گئے 2017 میں، بین الاقوامی صحافتی تنظموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بلوچستان کو صحافیوں کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا گیا تھا جبکہ صوبہ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہرخضدار کو امنیسٹی انٹرنیشنل نے صحافیوں کا قبرستان قرار دیا 2008سے لیکر اب تک صحافی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق 45 سے زائد صحافیوں کو بلوچستان میں مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا ہے،جن میں سے اکثریت کو فائرنگ کرکے ٹارگٹ کیا گیا جبکہ کئی بم دھماکوں کے کوریج کے دوران دوسرے دھماکوں میں شہید ہوئے،متعدد بم دھماکوں حملوں و فائرنگ سے زخمی بھی ہوئے، اکثر صحافیوں کو قتل کرنے و سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں جس کی سبب متعدد صحافیوں نے صحافت کے شعبے کو ہمیشہ کیلئے خیر آباد کرکے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ان میں کوئٹہ، مستونگ، خضدار،قلات، تربت، حب، جھاؤ آواران، گوادر،تربت اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے صحافیوں کے لئیے قبرستان قرار دئیے جانے والے خضدار میں 2008 سے لیکر ابتک 8 میڈیا پرسنز کو قتل کیا گیا جن میں پریس کلب کے سابق صدر محمد خان ساسولی، سابق فنانس سیکریٹری منیر شاکر، اعجاز مینگل، عبدالحق بلوچ، فیض الدین ساسولی، حاجی وسیع احمد قریشی، سراج احمد گرگناڑی، منظور احمد گرگناڑی شامل ھیں، خضدار پریس کلب متعدد بار بند بھی رھا۔ خضدار پریس کلب کوشھداء کا پریس کلب کا اعزاز بھی حاصل ہے، اور صحافیوں کو قتل کی دھمکیاں بھی مختلف اوقات میں ملتی رہیں، جس کے سبب صحافیوں میں خوف بھی طاری رہا۔ خضدار کے ہی سینئر صحافی ریاض مینگل کو 2007 میں ایک خبر شائع کرنے بعد دھمکیاں دی گئیں کے مذکورہ خبر کی تردید کرو،انکار کرنے کے بعد کچھ دنوں بعد گن پوائنٹ پر انکو اغوا کیا اور 56 دن تک وہ اغوا کاروں کے ہاں مختلف مقامات پر قید رہے اور انکو تشدد کا نشانہ بھی بنایاگیا 56 دن بعد وہ موقع پاکر اغوا کاروں کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ وہ بلوچستان کے پہلے صحافی تھے کے انکو اغوا کیا گیا اور اس کے بعد بلوچستان کے دیگر علاقوں کے صحافیوں کے ساتھ ظلم و ناانصافیوں،زیادتیوں کا نہ ختم ہونے ولا بلکہ نہ رکنے ولا سلسلہ شروع ہو گیا جو تا ہنوز جاری ہے۔ قلات میں ابتک 2 صحافیوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا ہے ان میں سینئر صحافی محمود آفریدی اور محمد جان شھباز سمالانی شامل ہیں۔ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں بلوچستان یونین آف جنرنلسٹس کے جنرل سیکریٹری ارشاد مستوئی،عبدالرسول خجک،آن لائن کے اکاؤنٹنٹ محمد یونس،چشتی مجاہد کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا، جبکہ سیف الرحمان بلوچ،اعجاز رئیسانی،ملک عارف،عمران شیخ، شھزاد،محمود ھمدرد بم دھماکوں میں لقمہ اجل بن گئے اور جام شہادت نوش کر گئے۔ ضلع گوادر میں لالا حمید بلوچ،صدیق عیدو، کوقتل کیا گیا اور گوادر سے ہی تعلق رکھنے والے صحافی دلشاد کو کراچی کے علاقے لیاری میں گو لیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔ ضلع کیچ تربت سے تعق رکھنے والے صحافیوں رزاق گل،عبدالکریم، الیاس نذراور ظریف فراز کو قتل کیا گیا اور پنجگور میں رحمت اللہ بلوچ کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ اوستہ محمد میں افضل خواجہ، ظفر جتک اور مچھ بولان میں رحمت اللہ کو قتل کیا گیا۔ حب میں پریس کلب کے جنرل سیکٹریٹری خادم حسین شیخ اور نصیر رند کو گولیاں مارکر قتل کیا گیا۔ ضلع واشک میں صحافی ممتاز کو قتل کیا گیا، اورچمن سے تعلق رکھنے والے صحافی ولی خان بابر کو کراچی میں قتل کیا گیا۔ مختلف اوقات میں حکمرانوں،حکو متوں کی جانب سے کیے جانے والے اعلانات پر کس حد تک عملدرآمد کیا گیا یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے اور قاتلوں کی عدم گرفتاری سے بھی شھداء کے اہلخانہ و ورثاء میں بھی تا حال بے چینی پائی جاتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر پریس کلبوں اور میڈیا سنٹرز میں شہید ہونے والے صحافیوں کی برسی تک نہیں منایا جاتا ہے اور نہ ہی تعزیتی ریفرنس منعقد ہوتے ہیں صحافت آزادی رائے کا اظہار اور ریاست کے چار ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے مگر آج ریاست کا یہی ستون نازک دور سے گزرہا ہے۔