فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے گی

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آئین کی 19ویں ترمیم سمیت تمام معاملات پارلیمنٹ کے فلور پر کرنے کی بجائے عدالت عظمیٰ سے تشریح کی درخواست کی جاتی ہے۔آج کل ایک صدارتی ریفرنس عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 63Aکی تشریح درکار ہے۔چیف جسٹس عطاعمر بندیال نے کہا ہے کہ آئین کاتحفظ عدالت کی ذمہ داری ہے، آرٹیکل63Aکی تشریح کریں گے، امید ہے وفاقی حکومت صدارتی ریفرنس کی تشریح کے راستے میں نہیں آئے گی۔واضح رہے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔ لارجر بینچ میں شامل جسٹس اعجازلاحسن نے کہا عدالت قانونی مسئلے پر اپنی رائے دینا چاہتی ہے، سوال صرف آئین کے آرٹیکل 63Aکی تشریح کا ہے، تشریح وفاق پر لاگو ہو ہیا صوبوں پر یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔عدالت کی جو بھی رائے ہوگی تمام فریق اس کے پابند ہوں گے۔اس موقع پر مسلم لیگ قاف کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں صدارتی ریفرنس کے فیصلے پر عملدرآمد بہیں ہوا۔سیاسی جماعتیں صدارتی ریفرنس پر عملدرآمد سے گریزاں ہیں۔ اس کے جواب میں عدالت نے کہا اگر ایسا ہوا تھا تو درخواست کیوں نہیں دی گئی؟کوئی درخواست آئی تو عدالت مناسب حکم دے گی۔عام آدمی آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگر پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے تو تو اس کا بنایا ہوا آئین اس قدر مبہم کیوں ہے کہ تشریح کے لئے بار بار عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا پڑتا ہے؟اراکین کو کب رکنیت کے کئے نااہل قرار دیا جانا چاہیئے؟ یہ معمولی سوال نہیں، اس میں کسی ابہام کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیئے۔سادہ، واضح اور شفاف انداز میں تمام شرائط لکھی جائیں، انہیں جب بھی پڑھا جائے ہر مرتبہ ایک ہی معنے نکلیں۔کوئی بھی پڑھے اسے مفہوم سمجھنے میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو، ایک ہی نتیجے پر پہنچے۔بار بار عدالت سے تشریح مانگنے سے یہی لگتا ہے کہ قانون سازی کے دوران دانستہ ایسے سقم رکھے جاتے ہیں اور ابہام پیدا کیا جاتا ہے کہ نااہلی سے بچنے کا راستہ کھلا رہے۔اب یہ بات بھی عدالت عظمیٰ نے خود ہی وکلاء کی موجودگی میں بیان کردی ہے کہ ازخود نوٹس کا فیصلہ کسی کے کہنے پر نہیں کیا گیا بلکہ سپریم کورٹ کے 12ججز پر مشتمل بینچ کی متفقہ رائے سے ہوا ہے۔اس وضاحت کی ضرورت شاید اس لئے ضروری سمجھی گئی کہ ماضی میں ایک پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو پانچ افراد کی کسی ذاتی رنجش کہہ کر متنازعہ بنانے کی کوشش ہو چکی ہے۔موجودہ اپوزیشن کو بھی شکایت ہے کہ رات 12بجے عدالتیں کیوں کھولی گئیں؟اس قسم کی ناگوار صورت حال سے بچنے کا راستہ ایک اور صرف ایک یہی جاتا ہے کہ آئین کے کسی آرٹیکل میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہ ہو جس کا فائدہ مجرم اٹھا سکے۔پہلی یا دوسری پیشی میں مقدمے کا فیصلہ کرنا ممکن ہو، مقدمات کی سماعت میں برسوں یا دہائیوں کی ضرورت نہ رہے۔ زیر بحث مقدمے کے فیصلے میں امید ہے کہ عدالت عظمیٰ اس پہلو کو بھی اجاگر کرے گی کہ ابہام کہاں تھا؟۔پنجاب کی اسمبلی میں اور اسمبلی کے باہر جو کچھ ہوا اور اراکین کی جس طرح ہوٹلوں میں آؤ بھگت کی گئی،قائد ایوان کے انتخاب کے روز جو کچھ ہوا،میڈیا پر دیکھا گیاتھا، اس کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ فریقین میں سے کوئی بھی اسے قابل فخرکارنامہ نہیں کہہ سکتا۔اس بارے صرف اظہار افسوس کیاجا سکتاہے۔گورنر اور صدر جیسے عہدوں کا وقار داؤپر لگا ہوا ہے۔ہائی کورٹ کی جانب سے صدر مملکت کی تضحیک کرنے کی شکایت سپریم کورٹ میں کی گئی ہے۔یہ شکایت بے بنیاد نہیں، اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔قانون سازی میں اراکین دلچسپی نہیں لیتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پہلی ترجیح قانون سازی نہیں۔انہیں اپنے علاقے کی نالیاں اور گلیاں پختہ کرانے کی فکر ستاتی ہے،ان کے ووٹرز اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے۔حالانکہ یہ کام بلدیاتی کونسلرز کا ہے۔لیکن صوبائی حکومتیں فنڈز بلدیاتی سطح تک فراہم کرنے کے لئے 75سال بعد بھی راضی نہیں۔اس کی وجہ کرپشن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ہر شخص کی زبان سے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ الیکشن کے اخراجات انہی تعمیراتی منصوبوں سے وصول کئے جاتے ہیں۔پہلی بارش میں سڑکوں اور پلوں کا بہہ جانا اسی کا نتیجہ ہے۔ اسکولوں کی عمارتوں کا سال دو سال میں گرنا اسی ہوس زر کا شاخسانہ ہے۔سب جانتے ہیں کہ ہر صوبے میں ٹھیکیداروں سے کمیشن کے ریٹ طے شدہ ہیں،اخراجات میں میٹریل، لیبر کے ساتھ شامل کئے جاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ مناسب سمجھے تو اپنے فیصلے میں کمیشن کا یہ دروازہ بند کر سکتی ہے۔نالیوں، گلیوں کی تعمیر سے اسکولوں کی عمارتیں بنانے جیسے کام بلدیاتی اداروں کو سونپے جائیں۔ کمیشن کا یہ ذریعہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین سے لے کر بلدیاتی اداروں کو منتقل کیا جائے تاکہ نالیاں تعمیر کرنے کی بجائے مکمل یکسوئی سے اراکین پارلیمنٹ قانون سازی کر سکیں۔انہیں پابند کیا جائے کہ قانون میں ابہام نہ رہنے دیں۔دو اور دو چار کی طرح واضح اور دوٹوک زبان استعمال کی جائے۔مجرم کو سزا سے بچانے کے لئے اگر، مگر،چونکہ، چنانچہ اور بشرطیکہ جیسے الفاظ سے گریز کیا جائے۔ہر عہدے کی ذمہ داری، فرائض اور اختیارات سمیت تمام امور سادے لفظوں میں بیان کئے جائیں۔ فیصلے میں لکھا جائے رکن اسمبلی کے رکن کی اپنی پارٹی سے وفاداری سے کیا مراد ہے؟عوامی نمائندوں کا ووٹ بیچنا کس قانون کے تحت جائز ہے؟سینیٹ کے انتخابات میں ہر تین سال بعد منڈیاں سجائی جاتی ہیں، ان کو نظر انداز نہ کیا جائے۔اگر آئین کے تحت صاف، شفاف، آزادانہ انتخابات منعقد کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے تو 75سال میں سوائے ایک (جنرل یحییٰ خان دور) کے باقی تمام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کا ذمہ دار کون ہے؟الیکشن کو جھرلو، انجنیئرڈ،آسمانی مخلوق کی کارستانیکہنا کیا الیکشن کمیشن کی توہین نہیں؟ایسی اصطلاحیں استعمال کرنے والوں کے خلاف الیکشن کمیشن کی خاموشی کو کیا نام دیا جائے؟ان تمام امور کا باریک بینی سے جائزہ لینا اور اس کی روشنی میں ایک جامع فیصلہ سنانے کی اشد ضرورت ہے۔یہ کام بہت پہلے ہوجانا چایئے تھا،بہت تاخیر ہوچکی ہے،مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے وفاقی حکومت کو بجا طور پر درست مشورہ دیا ہے کہ صدارتی ریفرنس کی تشریح کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے۔اس حوالے سے اٹارنی جنرل کی جانب سے ہلکے پھلکے اشارے عدلیہ کومل چکے ہیں۔ دیکھیں وفاقی حکومت معزز بینچ کی امیدوں پر کس حد تک پورا اترتی ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں