تھانیدار خود فریادی، عوام کی شکایت کون سنے گا؟

تحریر: محمد رمضان اچکزئی
اس وقت صوبے کے شہری علاقوں میں پولیس اسٹیشنزجسے عرف عام میں تھانے کہا جاتے ہیں موجود ہیں جبکہ اندرون صوبہ دیہی علاقوں اور تحصیلوں میں لیویز کا نظام رائج ہے۔ لیویز کے نظام سے متعلق اس وقت مشہور ہے کہ لیویز کے سپاہی علاقے کے سرداروں، نوابوں اور خانوں کے اثر و رسوخ میں ڈپٹی کمشنروں کے اثر و رسوخ سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ایک ڈپٹی کمشنر وحید شاہ واحد آفیسر تھا جس نے خضدار کے علاقے میں تمام لیویز سپاہیوں کو سرکاری ماتحت کر دیا تھا اور ان کے دور میں بھرتی کرنے والے لیویز سپاہی سے سوال ہوتا تھا کہ اگر آپ کو یہ بندوق دیا جائے اور آپ کے ڈیوٹی کے عین مطابق آپ سے کہا جائے کہ آپ اپنی سرکاری ڈیوٹی کرتے ہوئے علاقے کے کسی معتبر کوکسی الزام پر گرفتار کرے تو آپ کیایہ ڈیوٹی سرانجام دے سکتے ہیں تو جن لیویز سپاہیوں کا جواب ہاں میں ہوتا وہ لیویز کے سپاہی کے طور پر بھرتی ہو جاتا اور جن لیویز کے سپاہیوں کا کہنا ہوتا کہ میں اپنے معتبر کو کیسے گرفتار کروں تو ڈپٹی کمشنر انھیں گھر کا راستہ دکھا دیتے اور انھیں کہتے کہ پھر آپ اپنے معتبر ہی کے پاس انہی سے تنخواہ لے کرگزارہ کرے۔ بعد میں سب لوگوں نے دیکھا کہ خضدار میں امن و امان بحال ہوا اور خضدار میں رٹ آف گورنمنٹ قائم ہوئی۔راقم العروف نے بھی 70 کی دہائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس وقت تھانے کے سپاہی کی بھی عزت تھی اور ایس ایچ او تو علاقے کے سیاہ اور سفید کا مالک تھا۔ ایس ایچ او کے تھانے کے علاقے میں ڈاکے، چوری، لوٹ مار، لڑائی جھگڑے کے ہر واقعے کاعلم ایس ایچ او کو ہو جاتا تھا اور اگر ایس ایچ او ایماندار اور فرض شناس آفیسر ہوتا تھا تو وہ ہر قسم کی ڈکیتیاں، چوریاں، لڑائی جھگڑے ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا تھا اور ملزمان کے پاس اگر ایک یا دو سپاہی چلے جاتے تو ہر بڑے سے بڑے پنھے خان کو بھی تھانے حاضر کیا جاسکتا تھا۔ اس سے پیشتر جب ہمارے بزرگ قیام پاکستان سے پہلے کے پولیس نظام کی بات بتا تے تھے تو اس دور میں بھی قانون کی پاسداری ہر شہری پر فرض تھی اور ایک سپاہی چار بندے بھی گرفتار کرکے تھانے کسی شکایت کے سلسلے میں لاسکتے تھے اور تھانوں کے نظام ایسے تھے کہ کسی علاقے میں بھی کوئی چوری یا کوئی واردات ہو جاتی تو اس علاقے کے معتبر کے اوپر بھی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ ہر صورت میں ملزم یا ملزمان کو گرفتاری میں مدد کرے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ سپیزنڈ کے قریب ریلوے کے لائن پر لگی کوئی بتی چوری ہوئی تو اس علاقے کے معتبر کو بلایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اس بتی کو چوری کرنے والے ملزم کو ہر صورت میں تھانے حاضر کروانا ہے اور بعد ازاں بتی چوری کرنے والا ملا اور ان سے باز پرس ہوئی۔اسی طرح عدالتوں کا نظام تھا جہاں مقدمات کے کیسز کم جاتے اور فیصلے بھی اعلیٰ معیار کے مطابق ہو جاتے تھے بلکہ زیادہ تر فیصلے میڑھ اور جرگے کے ہونے سے امن و امان قائم و دائم تھا۔ آج کے حالات میں ایک تھانے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ اس لئے کہ اس تھانے کا ایس ایچ او خود فریادی ہے۔ اب اس علاقے میں عوام الناس کی شکایت کون سنے گا۔ واقعہ اس طرح ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اور ٹیلیفون بات چیت وائرل ہوئی جس میں معلوم ہوا کہ سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور سابق اسپیکر بلوچستان جان محمد جمالی کے فرزند ایس ایچ او تھانہ اوستہ محمد سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے انھیں اس طرح کی دھمکیاں دے رہا ہے کہ بندہ حیران ہو جاتا ہے کہ ایس ایس ایچ او کی وقعت اتنی ختم ہو گئی ہے کہ وہ جی،جی کے علاوہ آگے کوئی بات نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا ویڈیو سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر بھی بازگشت سنائی دی۔ لیکن اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اس علاقے کے بڑے معتبرین اکھٹے ہوئے اور انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف اپنی کہی گئی باتوں پر ایک دوسرے سے معافی مانگ لی اور ایک دوسرے کو معاف کر دیا لیکن ایس ایچ او کو سبی رینج کے ڈی آئی جی کے حکم پر جھل مگسی تبدیل کرکے ان سے متعلق احکامات میں تحریر کیا کہ یہ تین سال کیلئے کسی تھانے کا ایس ایچ او نہیں بن سکتا۔ اس طرح کسی طاقتور کے کہنے پر ایس ایچ او اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ ایس ایچ او کے خاندان نے بھی طاقتوروں سے معافی کی خواہش کی لیکن معلوم ہوا کہ انھیں تاحال معافی نہیں دی گئی ہے کیونکہ وہ دوسرے درجے کے کمزور طبقے سے تعلق رکھتا ہے اس کے علاوہ وہ جس فورس پولیس کا حصہ ہے اس نے بھی انھیں سبق یاد کرایا اور بتایا کہ تھانے کے ایریے میں ہر سردار، نواب، خان، وزیر، اسمبلی کا ممبر کا حکم چلتا ہے اور نوکری کرنی ہے تو ان طاقتوروں کی بات مان کر نوکری کی جاسکتی ہے ورنہ آپ کو بطور ایس ایچ اورسوائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب اس واقعے میں ایس ایچ او نے غلطی یہ کی ہے کہ انہوں نے ایک طاقتور کی گاڑی پکڑ کر اس کی طاقت کے خوف سے اسے واپس کردی اور دوسرے طاقتور نے ناراضی کا اظہار کیا کہ آپ نے میرے مخالف کی گاڑی واپس کیوں کی اس طرح بے بس ایس ایچ او اپنے انجام کو پہنچا اور آج وہ خود علاقے میں معافی کیلئے فریادی ہے۔ اب عام شہری انسپکٹر جنرل پولیس سے معلوم کرنا چاہ رہے ہیں کہ ایس ایچ او کی اس طرح تذلیل اور بے بسی کے بعد اوستہ محمد کا کونسا شہری تھانے جاسکتا ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ تھانے طاقتوروں کے قبضے میں ہیں۔ اب اس علاقے کے شہری طاقتور کے ٹھکانے پر جانے میں عافیت سمجھیں گے۔ یہ صرف ایک علاقے اوستہ محمد کی بات نہیں ہے بلکہ پورے صوبے میں پولیس کے تمام تھانے اور لیویز کے تمام تھانے اسی طرح کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں اور کوئی جرات نہیں کر سکتا کہ وہ ان واقعات پر بات کرے اس لئے ضروری ہے کہ انسپکٹر جنرل پولیس اپنے تمام ڈسٹرکٹ پولیس آفیسروں اور ان کے ماتحت تھانوں کے ایس ایچ او اور پولیس کے مورال کو بلند کرنے کیلئے اقدامات اٹھائیں اور تمام پولیس عملے اور آفیسروں کو ہدایت کرے کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے تھانے میں ہر مظلوم کی شکایات کا اندراج کرے اور بلا خوف و خطر اپنا کام ایمانداری اور محنت سے جاری رکھے۔ اس طرح سے شہریوں کا پولیس اور لیویز پر اعتماد بحال ہونے سے صوبے میں شہریوں کے آئینی بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایس ایس ایچ او کے معاملے پر انکوائری کروا کر اس کی دادرسی کرنے سے پولیس آفیسروں اور عملے کے مورال کو بلند کیاجاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں