ابھی عام آدمی کچھ نہیں سمجھا

یہ درست ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے سے آئندہ ایم پی ایز اپنے وزیر اعلیٰ اور ایم این ایز وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن کی مدد کرنے سے پہلے ایک سے زائد بار سوچیں گے کہ اس کے نتیجے میں انہیں اپنی سیٹ کی قربانی دینا پڑے گی۔دوسری طرف اپوزیشن بھی”لوٹوں“ کی آؤبھگت کرنا ترک کر دے گی کہ ان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا تو کسی صوبائی ہاؤس یا مہنگے ہوٹلوں میں مہمان نوازی کیوں کی جائے۔ ان کے گرد پہرا کیوں دیا جائے۔لیکن ابھی اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا،حکومت اور اپوزیشن کے وکلاء میڈیا پر اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں،دونوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے فریق کی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اس ضمن میں تیسری رائے یہ ہے کہ پنجاب کی حکومت تو ختم ہو جائے گی اور وہاں نئے انتخابات کرانے کی ضرورت ہوگی مگر وفاقی حکومت کام کرتی رہے گی کیوں کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اراکین کے ووٹوں کے بغیر ہی مسلم لیگ نون کے شہباز شریف قائد ایون منتخب ہو گئے تھے۔ایک حلقے کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت بجٹ سازی کرنے کے بعد مستعفی ہوگی کیونکہ اس کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل دوحہ میں آئی ایم ایف کی ٹیم سے مذاکرات کر رہے ہیں۔لیکن المیہ یہ ہے کہ دانشوروں میں سے کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو کراچی ایئر پورٹ پر وزیر اعظم کا پروٹوکول کیوں دیاگیا تھا؟علاوہ ازیں سابق وزیرداخلہ شیخ رشیداحمد جس ماہر معیشت کے نگراں وزیراعظم بنائے جانے کی پیش کررہے ہیں، ممکن ہے اسی ماہر معیشت کو پروٹوکول دیا گیا ہو۔ایک ضمنی سوال یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر موجودہ وزیر خزانہ نے ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے قومی اسمبلی سے بجٹ منظور کراناہے تو ”نگراں وزیر اعظم“ اس عرصے میں کیا کام کرے گا؟ اپنی کابینہ تشکیل نہیں دے گا؟کیا نگراں وزیر اعظم کویہ عہدہ صرف پروٹول کے لئے دیا جائے گا؟واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ سے صدر پاکستان نے آئین کے آرٹیکل63Aکی تشریح کے لئے ریفرنس بھیجا تھا،عدالتی زبان سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ ریفرنس کے جواب میں عدالت ٰتشریح بیان کرتی ہے اور اسے اپنا opinionکہتی ہے، Judgement نہیں کہتی،قانونی ماہرین کے مطابق ججمنٹ اسوقت لکھا جاتا ہے دو یا دو سے زائد فریقوں کے درمیان کسی تنازعہ کا تصفیہ یافیصلہ سنایا جاتا ہے۔نیز معروف وکلاء میڈیا پر وضاحت دے چکے ہیں۔اس کے بعد وزراء کو عدالتی تشریح پر فضول رائے زنی سے باز آجانا چاہیئے تھا۔اگر کسی کو شبہ ہے تو الیکشن کمیشن کے ججمنٹ کا انتظار کرے،اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوچے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے محفوظ فیصلہ کیوں نہیں سنایا گیا، سپریم کورٹ سے آئینی تشریح کی تصدیق شدہ نقل کیوں حاصل کی جا رہی ہے، فریقین کو نوٹس بھی جاری کئے ہیں،اس کے معنے یہی ہوں گے کہ فیصلہ نہ سنانے کی کوئی ایسی وجہ ہوگی جو عدالت عظمیٰ کی تشریح میڈیا پر آنے کے بعد الیکشن کمیشن نے دیکھ لی ہوگی۔علاوہ ازیں جن افراد، حکومتی عہدیداروں اور اداروں کے لئے اس عدالتی تشریح میں کسی قسم کاپیغام موجود ہے،وہ چوکنا ہو گئے ہیں،ایک دو دن میں تمام ذمہ داران کی طرف سے مناسب اقدامات سامنے آجائیں گے۔گیارہ جماعتی اتحاد پر مشتمل مخلوط حکومت نے قانونی ماہرین سے مشاورت کر لی ہے، اس مشیروں نے بتایا ہوگا کہ عدالتی تشریح کے نتیجے میں انہیں کتنا فائدہ یا نقصان پہنچا ہے۔واضح رہے ملک حد درجہ نازک،پیچیدہ اور دشوار سیاسی اور معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے، غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی قطعاً گنجائش نہیں۔معاشی تباہی پرسری لنکا کے مناظر سب دیکھ رہے ہیں۔امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ تیزی سے گرنے کا رجحان توجہ طلب ہے۔اگر اس مسئلے کا مناسب حل تلاش کرنے میں غفلت برتی گئی تو یاد رہے دیوالیہ قرار دیئے جانے کا اندیشہ حقیقت بن سکتا ہے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اپنے ہم منصب کی دعوت پر امریکی دورے پر ہیں،ان کی واپسی پر معلوم ہو سکے گا کہ امریکہ مالی مشکلات سے نکلنے میں پاکستان کی کتنی مدد کرے گا۔آئی ایم ایف کے بارے میں عمومی تأثر ہے کہ امریکی اشاروں پر چلتا ہے۔اس تأثر کے درست یا غلط ہونے کا راز بھی کھل جائے گا۔ڈالر کی اڑان کسی لحاظ سے نیک شگون نہیں، اسے جلد روکا جائے۔8مارچ کوتحریک عدم اعتماد پیش ہوتے ہی ڈالر کی قیمت تیزی سے بڑھنے لگی اور 178روپے سے بلند ہو کر گزشتہ روز انٹر بینک شرح 98 روپے 34پیسے اور اوپن مارکیٹ میں 200روپے50پیسے تک پہنچ گئی۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا۔تبدیل شدہ عالمی تناظر میں، ماضی کے برعکس وزیر اعظم شہباز شریف فجر کے فوراً بعد دفتر پہنچ کر کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکے۔دوست ممالک سے مالی مددحاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد انہیں معلوم ہو گیا ہوگا کہ پہلے کورونا کی وباء نے اورپھرکورونا کے جاتے ہی23فروری 2022کو روس اور یوکرین کے درمیان چھڑ جانے والی جنگ نے دنیا کی معیشت کو بری طرح جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک میں سے ہر ایک اپنی پریشانی میں گھرا ہواہے۔بھارت اوریورپی ممالک روس سے ملنے والی گیس ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی روبل میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ پیٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتیں عالمی منڈی میں معمول سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں۔پاکستان کو اس ضمن میں ایک مشکل فیصلہ کرنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کی جائیں یا کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جائے؟بظاہر متبادل راست نظر نہیں آ رہا،شرائط تسلیم کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔مگر فوری انتخابات کی تلوار بھی سر پر لٹک رہی ہے۔فوری انتخابات کی صورت میں مہنگائی بڑھانے کا الزام اپنے کندھوں پر اٹھانے کے بعد ووٹ مانگنا آسان نہیں ہوگا۔مخالف فریق عوامی ناراضگی کیش کرا سکتا ہے اور یہ بات 11جماعتی حکومتی اتحاد بھی جانتا ہے۔اسی سبب تذبذب کا شکار ہے۔عدالتِ عظمیٰ کی تشریح نے پنجاب حکومت کے لئے ان دیکھی مشکلات کھڑی کر دی ہیں، الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی تشریح کو بائی پاس نہیں کر سکتا، پارلیمنٹ بھی اسی تشریح کی روشنی میں منحرف ایم پی ایز اور ایم این ایز کی نااہلی کی مدت بارے قانون سازی کرے گی۔منحرف رکن کے پارٹی پالیسی سے انحراف کرکے دیئے ہوئے ووٹ کو شمار نہیں کراسکے گی۔ماضی میں ایسی آئینی تشریح نہ ہونے کاباعث منحرف ارکان پارٹی سے وفاداری کاسودا کرکے مال بھی کماتے، اسمبلی کے رکن بھی رہتے تھے،عدالت عظمیٰ نے یہ دروازہ بند کر دیا ہے۔ موجودہ پنجاب حکومت اس نئی مصیبت کے لئے تیار نہیں تھی۔دیکھیں کیسا حل تلاش کرے گی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں