بلوچستان میں دوسری تحریک عدم اعتماد

14اراکین اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کرنے والوں میں سینئر وزیر سمیت دو وزراء اور مشیر اور پارلیمانی سیکرٹریز بھی شامل ہیں، عدم ماعتماد کی تحریک پر دستخط کرنے والوں کووزیر اعلیٰ نے عہدوں سے سبکدوش کرنے کی ایڈوائس جاری کر دی ہے۔تحریک عدم اعتمادکی منظوری کے لئے کم از کم 33 ارکان کی حمایت درکار ہے۔تحریک پیش کرنے والوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ حکومتی کارکردگی اچھی نہیں تھی،گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران بلوچستان کے معاملات پر ہمیں اور عوام کو تحفظات ہیں۔ جو امیدیں تھیں‘پوری نہیں ہوئیں۔دوسری جانب حکومت کا دعویٰ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کے پاس مطلوبہ تعداد نہیں، اس لئے انہیں ناکامی ہو گی۔بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں آج تک کوئی بہتر حکومت نہیں آئی،اس لئے یہ کہنا مشکل ہے جام کمال اور میر عبدالقدوس کی حکومتوں کی کارکردگی میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا، البتہ میر عبدالقدوس کی حکومت نے حالات کو اس نہج تک نہیں پہنچایا کہ ہٹانے کے لئے صف اول میں کھڑے ہوں۔سردار باختر مینگل نے گفتگو کے دوران یہ بھی کہا کہ عدم اعتماد کے سلسلے میں ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، ممکن ہے ان کے پاس تعداد پوری ہو۔واضح رہے کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے کامیابی یا ناکامی تک عام آدمی کا کو ئی کردار نہیں،جو کچھ کرنا ہے ارکان اسمبلی نے خود کرنا ہے اور اسمبلی کے فلور پر سب کے سامنے کرنا ہے کہ وہ تحریک کی حمایت کرتے ہیں یا اس کے مخالف ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ خود ہی مستعفی ہوجائیں اور رائے شماری کی ضرورت نہ رہے۔بلوچستان اسمبلی میں ابھی تک کسی بھی رائے شماری کے دوران پنجاب اسمبلی جیسے مناظر دیکھنے کو نہیں ملے۔امید ہے کہ بلوچستان کے عوامی نمائندے دلائل سے قائل کرنے کی دانشمندانہ حکمت عملی پر ہمیشہ عمل کریں گے،ایک دوسرے کو تھپڑ اور مکے رسید نہیں کریں گے۔واضح رہے اپنے سیاسی اختلافات کو مہذب انداز میں طے کرنے کا نام سیاست ہے۔سیاست میں تشدد داخل ہو جائے تو صوبائی اسمبلی کا فلور ہو یا قومی اسمبلی کا،شرمناک اور افسوسناک مناظر دیکھے جاتے ہیں۔عدام اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی جمہوری طرز حکومت کا ایک سیفٹی والو ہے،اس نے پورے سسٹم کو زورداردھماکے سے پھٹنے اور ریزہ ریزہ ہونے سے بچایا ہوا ہے۔سارا غصہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب یا ناکام بنانے کوشش کے دوران ختم ہو جاتا ہے، ایوان اور حکومت اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔لیکن اس بار بجٹ سازی کا دشوار اور نازک کام سرپر ہے، اس لئے دونوں فریق تاخیری حربے استعمال نہ کریں،طے شدہ طریقہئ کار اوردی گئی مدت کے دوران تحریک کامیاب یا ناکام ہونے کا راستہ نہ روکا جائے۔ ایوان میں جسے اکثریت حاصل ہو، اسے خوشدلی کے ساتھ وزیراعلیٰ تسلیم کر لیا جائے۔ عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ڈائریا(دست اور ہیضے)جیسی جان لیوابیماری میں مبتلاء ہوکر سینکڑوں بچوں سمیت شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ابھی پانی کی قلت چند ہفتوں بعد بارشوں کا پانی تباہی مچائے گا، ڈیم تعمیر کئے جائیں تاکہ شہریوں اور جانوروں کو شفاف پانی پینے کے لئے مل سکے، سیلاب سے بھی بچ سکیں، کھتی باڑی ہو سکے، زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں۔فنڈز عوام کی امانت ہیں، عوامی مسائل حل کرنے پر خرچ کئے جائیں۔کوئی وزیر، کوئی مشیر، اور کوئی مجاز افسر عوام کی امانت اپنی جیبوں میں نہ ڈالے۔75برسوں میں جو ہوچکا کافی ہے۔ماضی کی غلطیوں کو مستقبل میں نہ دہرایا جائے۔فنڈز کی تقسیم منصفانہ انداز میں ہونی چاہیئے، یوسی لیول تک فنڈز کے استعمال کی تصدیق کو یقینی بنایا جائے۔ ٹھجیکیدروں سے مل کر کھانے کی دیرینہ روایت ختم کی جائے۔ایک دوسرے کو چور کہنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے۔کون چور ہے اور کون پارسا ہے،یہ کوئی راز نہیں، آج جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، سب جانتے ہیں۔عوام،بالخصوص نوجوان نسل سے ہیرا پھیری نہیں چھپ سکتی۔بہتر ہوگا کہ چوری کی عادت ترک کر دی جائے۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں چوری کو برا سمجھا جاتا ہے، پاکستان میں بھی چوری کو برا سمجھا جانا چاہیئے۔یاد رہے چوری رکے گی تب عوام کے مسائل حل ہونا شروع ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں اب تیسری نسل اپنی عملی معاشرتی زندگی گزار رہی ہے، نوجوان نسل جانتی ہے کہ قدرت نے بلوچستان سمیت پاکستا ن کو زرخیز زمین، چار موسم،سارا سال بہنے والے دریا،23کروڑ سے زائدجفاکش اور ہنر مند شہری بہت کم عرصے میں غربت، بیماری، اور بیروزگاری جیسے مسائل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ چوری کا دروازہ بند کر دیا جائے۔یہ مسائل حکمرانوں کی خودغرضانہ سوچ کی پیداوار ہیں۔حکمران اپنی اصلاح کرلیں،مسائل کا بوجھ عوام کے کندھوں سے اتر جائے گا۔کیا کوئی سیاست دان اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو قدرت نے وافر مقدار میں سونا، چاندی، تانبا،لوہا،کوئلہ،قدرتی گیس،ساڑھے سات سو کلومیٹر طویل ساحل، اورساحل سے 5سو ناٹیکل میل تک پھیلا ہوا آبی وسائل سے مالا مال وسیع و عریض سمندر عطا نہیں کیا؟کیا قدرتی وسائل کی مدد سے عوام کی مشکلات حل نہیں کی جا سکتیں؟ اسی طرح یہ قدرتی دولت دیگر صوبوں کے پاس بھی موجود ہے۔صرف عوام دوست سوچ اورمناسب منصوبہ بندی درکار ہے۔یہ انمول وسائل خودغرض حکمرانوں کی اندھی لالچ
کے باعث چپکے چپکے کھائے جا رہے ہیں، عوام تک اس کے ثمرات نہیں پہنچ رہے۔وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟ یہ سوچنا اراکین اسمبلی کا کام ہے۔عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔75سال ایک طویل مدت ہے، عوام نے صبر سے کام لیا اور انتظار کرتے رہے ہیں کہ کبھی تو حکمرانوں کی ہوسِ زر ختم ہوگی، کبھی تو انہیں عوام کے مسائل دکھائی دیں گے؟مگر آج بھی عوام سے صرف ووٹ مانگا جاتا ہے، وسائل میں اسے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا۔سوئی سے نکلنے والی گیس اور سینڈک کے سونے کے ذخائر ختم ہوگئے مگر بلوچ عوام سمیت پاکستان کے عوام پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں۔ لاکھوں ایکڑزرعی زمین کے باوجود ہر سال لاکھوں ٹن گندم درآمد کی جاتی ہے، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے۔اس بد انتظامی کا ذمہ دار کون ہے؟حکمران سوچیں،اب وقت آ گیا ہے کہ مالیاتی اور اخلاقی بدنظمی دور کی جائے۔ پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے، عوام کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں