”ہندوستان پاکستان کے نقش قدم پر “

جیئند ساجدی

برصغیر جو موجودہ ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش میں تقسیم ہے یہ غالباً اپنے زرخیز زمین اور پانی کی کثرت کی وجہ سے مختلف خطے کے لوگوں کی ہجرت کا پسندیدہ مرکز رہا ہے کولمبس بھی اس کے وسائل کا سن کر یہاں آنا چاہتا تھا لیکن تکنیکی غلطی کی وجہ سے امریکہ چلے گئے۔ مختلف ادوار میں یہاں مختلف نسل اور خطوں کے لوگ آئے جیسے کہ آرین ،سیتھین ، پارنتھین ،کوشان، یونانی ، افغان ،ترک وغیرہ ۔اس برصغیر کی خاصیت یہ تھی اس نے ہر حملہ آور کو اپنی ہندوستانی ثقافت میں ڈھالیا ہندو مت صدیوں تک برصغیر کاباکثرت مذہب رہا۔ 320 قبل مسیح میں یہاں دو مذاہب بدازم اور جین ازم نے بھی جنم لیا بدازم اشوک بادشاہ کے وقت ہندوستان میں بہت پھیلا لیکن موریا حکومت ختم ہونے کے بعد بدھ ازم ہندوستان سے باہر تو پھیلا لیکن ہندوستان کے اندر ختم ہو گیا اور ہندو مت نے اپنی جگہ پھر سے قائم کی۔ 712AD میں سیاسی اسلام پہلی مرتبہ ہندوستان کے شمالی علاقے موجودہ سندھ میں آیا لیکن محمد بن قاسم کے سپاہی راجپوتوں کی مزاحمت کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے اور اس عرب حملے کے اثرات سندھ تک ہی محدود رہے اس کے بعد سیاسی اسلام تقریبا 300 سال کے بعد ہندوستان میںترک بادشاہ محمود غزنوی کی صورت میں آیا لیکن اس حملے کے اثرات بھی محدود تھے انہوں نے صرف پنجاب کو ہی اپنی وسط ایشائی سلطنت کا حصہ بنایا۔ 1190 میں تاجک محمد غوری نے پرتھوی راج چوہان کو ہرا کر دلی پر قبضہ کرلیا اور اپنی سلطنت کو بنگال تک پھیلایا ۔ اس حملے کے ہندوستان میں گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ محمد غوری کی وفات کے بعد ان کے ترک غلاموں نے وسطی ایشیا جانے کی بجائے ہندوستان میں ہی قیام کیا۔ اس دوران پنجاب اورسندھ کے علاوہ بہت سے شمالی ہندوستان کے لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا تاہم اکثریت ہندو مذہب سے ہی منسلک رہی ۔ جواہر لال نہرو اس حوالے سے لکھتے ہیں” ہندوستان کے کچھ لوگوں نے اس لئے اسلام قول کیا کیونکہ واقعی انہیں اسلام اچھا لگا تھا کچھ لوگوں نے معاشی وجہ سے اسلام قبول کیاتاکہ جزیہ سے بچ سکے اور کچھ لوگوں نے ہندوﺅں کے ذات والے نظام سے آزاد ہونے کے لیے اسلام قبول کیا“۔خاندان غلامان سے تعلق رکھنے والے ترک بادشاہ ہوں یا افغان بادشاہ یہ سب کے سب دور اندیش اور ہندوستان کے زمینی حقائق سے واقف تھے یہ جانتے تھے ہندوستان مذہبی اور نسلی حوالے سے منفرد نہیں اور کسی مذہب کو باقی سب پر غالب کرنا شاہد ان کی سلطنت کے امن و امان کو تباہ کر سکتا ہے ان کی اسی پالیسیوں کی وجہ ہندوستان میں مذہبی امن قائم و دائم رہا جب بابر مغل جنہوں نے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی تھی انہوں نے اپنی کتاب تذکربابری میںاس بات کا زکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے ہمایوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ اگر ہندوستان میں حکومت کرنا چاہتے ہو تو اپنی رعایا میں مذہب کی بنیادپر تفریق مت کرنا بابر کے بعد سب ہی مغل بادشاہ زمینی حقائق سے واقف تھے اور کسی قسم کی مذہبی تعصب سے خود کو دور رکھا مغلوں میں سب سے کامیاب بادشاہ اکبر نے جزیہ تک کو ختم کر دیا تھا اورنگزیب عالمگیر تک جزیہ ختم رہا اپنے بزرگوں اور ماضی کے بادشاہوں کی طرح شاید اورنگزیب عالمگیر دور اندیش نہیں تھے انہوں نے جزیہ پھر سے ہندوﺅں پر لاگو کیا اس کے علاوہ انہوں نے سکھوں پر فوجی چڑھائی کی مغلوں کے پرانے اتحادی راجستھان کے راجپوتوں سے بھی جنگ چھڑ کر ان سے تعلقات خراب کئے اس کے علاوہ اورنگزیب نے جنوبی ہندوستان کے شیعہ بادشاہوں کی ریاستوں عادل شاہی اور نظام شاہی پر حملے کر کے ان کو جبراً اپنی سلطنت کا حصہ بنایا۔ ان کے ان اقدامات کی وجہ سے سکھ ، راجپوت ، جٹ و دیگر نے بغاوتیں کیں اور ریاست کا امن و امان تباہ ہوگیا۔ مرہٹوں کے اس وقت کے لیڈر شیواجی نے اس سلسلے میں اورنگزیب کو خط بھی لکھا جس میں انہوں نے تحریر کیا تھا کہ” اپنے رعایا پر مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنا آپ کو زیب نہیں دیتا اور آپ کے رب نے خود فرمایا کہ میں رب العالمین ہوں محض رب المسلمین نہیں“ اورنگزیب کے بعد مغل سلطنت کی طاقت تقریباً ختم ہو گئی اور مغل بادشاہ کا اثرورسوخ صرف لال قلعے تک محدود رہااورنگزیب کی غلطی سے سبق حاصل کرکے بہت سے کامیاب ہندوستانی راجاﺅں نے اپنی رعایا پر مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی اس کی مثال میسور ریاست کے حیدر علی اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان ہیں مرہٹوں کی ریاست میں بہت سے مسلمان اعلیٰ عہدوں پرفائز تھے ۔پانی پت کی تیسری لڑائی میں (1761) میں مشہور تھوپ چی ابراہیم خان گردی مرہٹوں کی طرف سے احمد شاہ ابدالی کے سپاہیوں سے لڑے ۔1857ءمیں ہندو مسلمان راجہ ایک ساتھ برطانوی سامراج سے لڑے تھے۔ بعض دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں مذہب کا سیاسی استعمال برطانوی سامراج نے کیا مغلوں یا دیگر مسلمان حکمرانوں کی طرح جنہوں نے ہندوستان کو اپنا گھر بنا لیا تھا اور ہندوستانی لوگوں سے رشتے ناطے سیاسی بنیادوں پر کئے تھے ان کے برعکس برطانوی خود کو ہندوستان میں اجنبی سمجھتے تھے اور ان کا مقصدمحض ہندوستان کے وسائل لوٹ کر برطانیہ لے جانا تھا۔ کسی بھی نامور برطانوی افسر نے اپنے سروسز کے بعد ہندوستان میں قیام نہیں کیا اس غرض سے ریاست میں امن و امان اور مختلف مذہبوں میں ہم آہنگی برطانوی سامراج کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا مذہبی اور نسلی حوالے سے تقسیم ہندوستان برطانوی سامراج کو سپورٹ کرتا تھا ۔اس لئے انہوں نے Divide and Rule کی پالیسی اپنائی اور مسلمانوں کو صرف اس لئے ایک قوم تسلیم کیا کہ ان کا مذہب جدا ہے اس کے برعکس سلطنت عثمانیہ میں انہوں نے ترک خلیفے کے خلاف عرب قومیت کا کارڈ استعمال کیا اور عربوں کو باور کرایا صرف مذہب ایک ہونے سے عرب اور ترک ایک نہیں ہوتے اور دونوں الگ قومیں ہیں 1947ءمیں جب برطانیہ کے چلے جانے کے بعد دو آزاد ریاستیں مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئیں اس وقت ہندوستان کے برعکس پاکستان میں لیڈر شپ کا فقدان تھا ۔نہرو،امبیدکراور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے لیڈر دور اندیش تھے اور زمینی حقائق سے بھی واقف تھے ان کو اندازہ تھا کہ ہندوستان کثیرالقومی اور کثیر مذہبی ریاست ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ چندر گپت موریا کے دور کے علاوہ یہ خطہ کبھی بھی ایک مرکز کے ماتحت نہیں رہا اس لئے انہوں نے ایسی قانونی سازی کی جسے ہندوستان کے کسی لسانی گروپ اور مذہبی فرقہ عدم تحفظ کا شکار نہ ہواور انہوں نے ہندوستان کو سیکولر ریاست قرار دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے لسانی گروہوں کو بھی تسلیم کیا اور ان کو شناخت دینے کیلئے ان کے نام سے صوبے بھی بنائے جیسے کہ پنجابیوں کے لئے پنجاب ، راجپوتوں کیلئے راجھستان ، گجراتیوں کے لئے گجرات ، بنگالیوں کیلئے بنگال اور تاملوں کیلئے تامل ناڈو ، ہندوستان کا قومی ترانہ بھی اپنے اندر مقیم تمام قومیتوں کو تسلیم کرتا ہے اور ترانہ بھی وہاں کے مقامی زبان ہندی میں ہی لکھا گیا جو سب کے سمجھ میں آتا ہے جبکہ پاکستان کا قومی ترانہ بھی بیرونی زبانوںمیں لکھا گیا ہے جو یہاں پر آباد کسی بھی قوم کی سمجھ نہیں آتا اور نہ ہی یہ ترانہ یہا ں پر کسی بھی قوم کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے برعکس پاکستانی لیڈر نہ تو دور اندیش تھے اور نہ ہی زمینی حقائق سے واقف تھے۔ پاکستان بھی ہندوستان کی طرح کثیر القومی اور کثیر مذہبی ریاست تھا لیکن انہوں نے ایسی قانون سازی کی جسے سے مقامی قومیں اور مذہبی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہوئیں مقامی زبانوں کو تسلیم کرنے کے بجائے پاکستانی لیڈروں نے اردو جو کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کی زبان تھی اس کو قومی زبان تسلیم کیا 1951ءکے اعداد و شمار کے حوالے سے اردو اس وقت محض صرف 3فیصد پاکستانیوں کی زبان تھی بنگالیوں کی اکثریت کو قابو میں کرنے کیلئے پاکستانی حکمرانو ں نے علاقائی شناخت ختم کر کے One Unitکا قیام کیا اور اس اقدام کی یہ وضاحت دی گئی کہ قوموں کے نام سے صوبے بنانے سے پاکستانی شناخت کو خطرہ ہے جبکہ زمینی حقائق یہ تھے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم اپنی مرضی سے اپنی شناخت چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتی پاکستان جیسے کثیر القومی ریاست کو چلانے کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ یہاں کے مقامی قوموں کوشناخت دے کر ان کے مضبوط وفاقی اکائیاںقائم کئے جاتے اور مضبوط مرکز سے اجتناب کیا جاتا۔ بہتر قانون ازی کی بجائے حکمرانوں نے سیاسی مزاحمت پر ریاستی طاقت کے استعمال کو ترجیح دی جسے امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوئی اور آدھا ملک ٹوٹ گیا صوبے جب بنائے بھی گئے تو لسانی بنیادوں پر نہیں بنائے گئے انگریزوں کے فارمولے پر عمل کر کے کثیراللسانی صوبے بنائے جس کا مقصد Divide and Rule تھا ان کثیر اللسانی صوبوں کو انتظامی صوبوں کا نام دیا گیا انہی مصنوعی صوبوں کی وجہ سے پنجاب میں سرائیکی پنجابی تضاد ہے بلوچستان میں بلوچ ،پشتون ، کے پی میں پشتون ، ہزارہ وال ۔ ان تمام لسانی تضادوں کی ذمہ دارحکمران خود ہیں ان کی پالیسیاں ابہام کا شکاررہی ہیں ۔ان کی ایک پالیسی یہ ہے کہ وہ مذہب کی بنا پرقوم کےion Definit کو تسلیم کرتے ہیںاور علاقائی شناختوں کو ماننے کیلئے تیار نہیں ۔لیکن یہ خود ہی لسانی تضادات کو خود فروغ دیتے رہے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سندھ میں مہاجر قوم پرست جماعت ایم کیو ایم کا قیام مقتدروں نے سندھی قوم پرستوں کو بلیک میل کرنے کیلئے کیا ،انتظامی بلوچستان بنانے سے بلوچ پشتون تضاد پیدا ہوا پنجاب کو تقسیم نہ کرنے سے سرائیکی پنجابی اور ہزارہ والوں کو صوبے نہ دینے سے ہزارہ پختون مسئلہ پیدا ہوا۔ ان کی ان پالیسیوں سے لسانی شناخت ختم ہونے کی بجائے اور زیادہ مضبوط ہوئی ۔سیاسیات کے ماہر تعلیم کہتے ہیں کہ بیرونی دشمن کے ہونے سے نیشنلزم کو فروغ ملتا ہے ایم کیو ایم کی سرکاری سرپرستی کی وجہ سے سندھی نیشنلزم ختم نہیں ہوئی بلکہ ایم کیو ایم کی وجہ سے اس کو مزید تقویت ملی، پشتونوں کی بلوچستان میں موجودگی سے بلوچ نیشنلزم ختم نہیں ہوئی بلکہ پشتونوں کی موجودگی سے مزید مضبوط ہوا اسی طرح بلوچ اکثریتی صوبے میں رہنے کی وجہ سے پشتون نیشنلزم بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اور زیادہ مضبوط ہوئی اگر سرائیکی اور ہزارہ والوں کو الگ صوبہ مل جاتا تو آج سرائیکی اور ہزارہ نیشنلزم بھی اتنا مضبوط نہیں ہوتا انہی غلط پالیسیوں کی وجہ پاکستانی نیشنلزم کو کسی قسم کا فروغ نہیں ملا۔ جب ملک میں مقیم افراد ایک دوسرے سے زبان یا مذہب کیوجہ سے نفرت کریں تو وہاں نیشنلزم اور ہم آہنگی نہیں پھیل سکتی اسی وجہ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستانی 73سال بعد بھی کوئی قوم نہیں بن سکے۔ نریندر مودی کی انتہاءپسند حکومت آنے کے بعد ہندوستان بھی پاکستان کے نقش قدم پر چل پڑا ہے یوں لگتا ہے کہ مودی اور اس کے کابینہ والے زمینی حقائق سے واقف نہیں اور دور اندیش بھی نہیں۔ بھارت کوبطور ریاست زیادہ خطرہ کثیر القومی ریاست ہونے کی بجائے کثیر المذہبی ریاست ہونے سے ہے ۔CAA اور NRC جیسے متنازعہ قوانین میں صاف صاف مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے ان کے احتجاج پر ریاستی سرپرستی میں حملے بھی ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کا قتل عام بھی ہو رہا ہے۔ اس ظلم کی وجہ سے ہندوستان میں بی جے پی جیسے دشمن کی وجہ سے مسلمان نیشنلزم کو فروغ ملے گا جو ظلم و ستم کی شدت کی وجہ سے مسلح جدوجہد کی طرف بھی جا سکتا ہے جس کی وجہ سے ہندوستانی ریاست اپنے ہی شہریوں پر طاقت کا استعمال کرے گی جسے نفرتیں مزید پھیلیں گی۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں اور سکھوں کے ساتھ بھی آگے چل کر امتیازی سلوک کیا جائیگا معروف سیاہ فام امریکی لیڈڑ مارٹن لوتر کہتے ہیں کہ” کسی ایک جگہ بھی نا انصافی ہر جگہ انصاف کے لیے خطرہ ہوتا ہے“۔ مودی اور ان کی جماعت بی جے پی ہر گز ہندوستان نیشنلسٹ نہیں ہیں کیونکہ نیشنلسٹ مختلف زبان اور مذہب کے لوگوں کو ایک کرتا ہے نہ کہ انہیں تقسیم کرتا ہے ان کی ان پالیسیوں کا خمیازہ سوا ارب ہندوستانیوں کو ادا کرنا پڑے گا یوں لگتا ہے کہ مودی یا تو پاکستانی حکمرانوں کی غلطیوں سے ناواقف ہیں یا ان سے بہت ہی زیادہ متاثرہیں پاکستانی حکمرانوں نے اپنے ہی شہریوں ( سندھی اور بلوچوں ) کو بلیک میل اور کمزور کرنے کیلئے پڑوسی ممالک سے آباد کار لا کر بلوچستان میں سندھ میں آباد کئے تھے اسی طرح ہندوستان بھی کالے قانون کے ذریعے پڑوسی ممالک سے شہری لا کر ہندوستان میں آباد کر رہا ہے اور اپنے ہی شہریوں پر ظلم کے نئے پہاڑ توڑ رہا ہے ۔ان اقدامات کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان اور ہندوستان میں رہنے والے انتہاءپسندوں کو ہوگا اور ان کے تنگ نظریات کو مزید فروغ ملے گا کہا جاتا ہے کہ دو الگ نظریئے کے انتہا پسندان جڑوا بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں جن کے سر اور جسم پیدائش کے وقت حیاتیاتی نقص کی وجہ سے ایک ہوتے ہیں اگر ایک مر جائے تو دوسرا بھی مر جاتا ہے –

اپنا تبصرہ بھیجیں