آواران-ایک لاوارث ضلع

تحریر سلطان فرید شاہوانی

1992 کو ضلع کا درجہ پانے والا آواران آج تک بھی ایک پسماندہ ضلع کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ عابد میر صاحب لکھتے ہیں کہ”آواران کو اگرحکومت ترقی دینے سے قا صر ہے تو کم از کم اس کو آثار قدیمی کی نشانی تو بنا سکتی ہے۔آواران ایک ایسا میوزیم جہاں ملک بھرکے طلبہ کو یہ دکھانے کیلئے لایا جاسکتا ہے کہ صدیوں پہلے لوگ یہاں کیسے غاروں،پہاڑوں اور میدانوں میں سفر کرتے تھے””۔
بات کرے تو کس چیز کی جو آواران کے لوگوں کے پاس ہے ۔ بھٹو صاحب کے دور میں مشکے میں بنی ہوئی پاور ہاوس سے بجلی محض 4 گھنٹے کیلئے ملتی ہے وہی 4 گھنٹے بھی تو روزانہ نہیں ملتے ۔ اتنی تکلیف پہاڑوں پر سفر کرنے سے نہیں ملتی ہے جتنی تکلیف مشکے سے لسبیلہ اور مشکے سے خضدار تک سفر کرنے میں ملتی ہے ۔ آواران سے بیلہ اور آواران سے مشکے اور مشکے سے خضدار اگر آپ آواران کے کسی کونے سے سفر کریں تو آپ کو ایک بھی اچھی اور پکی سڑک نہیں ملی گی اگر کچھ فاصلوں پر پکی سڑک مل بھی جائے تو وہ بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔ آواران تو پہلے بھی پسماندہ تھا اس ضلع کو 24 ستمبر 2013 کے زلزلے نے اور پسماندگی کی طرف دکھیل دیا۔اس دور کے وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف نے آکر بڑے بڑے دعوے کئے سنا تھا کہ آواران کو ماڈل ٹاون بنانے کا بھی دعوئ کیا گیا تھا وہ دعوئ بس دعوئ ہی ہو کر رہ گیا۔
کچھ مہینوں پہلے شبیر رخشانی صاحب نے اپنے مہم بلوچستان ایجوکیشن سسٹم مہم کے تحت 196 سکولوں کا سراغ لگایا جو کئ سالوں سے صرف سرکاری کاغذوں میں کھولے تھے جن میں سے کچھ سکولیں 10 سال سے بند تھیں اور کچھ سکولیں پانچ سال سے بند تھے- معاشرے جہالت پر اس وقت فکر کرتے ہیں جب وہ علم کی روشنی سے آشنا نہیں ہوتے۔ایک ضلع جس کے 196 سکولیں بند ہو تو وہاں کےطالب علم علم کی روشنی سی کیسے آشنا ہوسکتے ہیں ۔
پاکستان کے ایک مشہور کالم رائیٹر زبیدہ مصطفے کو جب اس لاوارث اور پسماندہ ضلع کی داستان کا پتا چلا تو اس کا قلم بھی نہ رکھ سکا وہ آواران کے بارے میں لکھتی ہے کہ” جب کوئی 7 سال کا بچہ اپنے خاندان سے الگ ہوکر 50 کلو میٹر دور ایک سکول میں پڑھنے کیلئے جاتا ہوں تاکہ اس کا مستقبل خراب نہ ہو تو اس بچہ پر کیا بیتے گا”۔
آواران میں بہت سے ایسے اسکولیں ہیں جن کے نہ دیورایں ہیں نہ ہی ان میں ٹوئلٹز ہیں ۔ گورنمنٹ مڈل سکول تانجو مشکے جو پہلے ایک پرائمری سکول تھا اس کو اب مڈل کا درجہ ملا یہ وہ اسکول ہے جہاں سے میں نے اپنا پرائمری پاس کیا تھا اسے دیکھ کر بخوبی آواران کے تعلیمی نظام کا انداذہ لگایا جا سکتا ہے جو صرف دو کلاس رومز پر مشتمل ہے جس میں کچھ سٹوڈنٹس کجھور کے درخت کے پتوں سے بنے ہوئے جھو نپڑی کے نیچے پڑھتے ہیں۔اس اسکول کا دیوار تک نہیں آواران میں آپ کو اس سے بھی اور بد ترین سکولیں ملیں گے جن کے دیوار تو کیا اچھے عمارت تک نہیں ہیں ۔
ایک اجلاس میں آواران سے الیکشن جیتنے والا جناب اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کہہ رہے تھے کہ ہم نے اپنے عوام کی خدمت کیلئے الیکشن لڑی ہے جناب کہ اس باتوں پر فیض احمد فیض کا یہ شعر بہت جچتا ہے
"”بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے””
اپنے حلقے کو پسماندہ رکھنے والا جناب کوئٹہ کے عوام کے سامنے یہ گن گا رہے تھے کہ ہم عوام کی خدمت کیلئے آئے ہیں جو شخص آواران کو 25 سالوں سے ایک اچھا سڑک، اچھا ہسپتال ، اچھی تعلیمی نظام اور بجلی کا نظام نہ دے سکا وہ شخص کوئٹہ والوں کو کیسے تر قی دے سکے گا جس جناب کے اپنے ہی ضلع میں 196 سکولیں بند پڑی ہو اور تعلیم کا نظام در ہم برہم ہو وہ کوئٹہ والاکا خدمت کیسے کریں گا ۔
بلوچی میں ایک کہاوت ہے کہ ” ہورے سر نوکیں چیر”
آواران میں جو بھی آیا ہے اس نے اپنے جیبیں بھری اس عوام کیلئے اس نے کچھ بھی نہیں کیا ۔پسماندگی کا ماخذ اور سبب کرپشن ہے کچھ مہینے پہلے سیاسی انتقام لینے کیلئے نیب کا ایک ٹیم آواران بھیج دیا گیا اس ٹیم نے انکشاف کیا کہ اس ضلع میں بہت کرپشن ہوئی – حال ہی میں آواران میں چند واٹر ٹینکیں بھی بنائے گئے لیکں ان میں پانی آج تک بھی نہیں ہیں ۔ایک صاحب نے 16 لاکھ کی ٹینکی بنائی تھی جس کو دیکھ یہ نہیں لگتا کہ اس پر 50 ہزار کا خرچہ ہوا ہے ۔ صاحب نے خیر ٹینک 16 لاکھ کا بناتو دیا لیکن اس نے اتنی زہمت بھی نہیں کی کہ اس ٹینکی تک پانی پہنچائے۔
بلوچستان کو تو پہلے سرداروں اور میروں نے لوٹا لیکں اب اس کو عام عوام لوٹنے میں مصروف ہے۔کسی شاعر نے کہا تھا
"ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہا دم تھا”۔
2013 سے 3 سال کیلئے بھرتی ہونے والے بیچلر اور ماسٹر ڈگری یافتہ انٹریز نے جب اپنے میعاد ختم ہونے کے بعد اپنے مستقلی کیلئے احتجاج کی اور اپنا آواز بلند کیا تو صاحب اقتدار نے ایک دن بھی ان کے اپنے حلقے کے نوجوانوں کیلئے آواز اٹھانیں کی زحمت نہیں کی آخر کار انٹرنیز نے اپنی آواز اسمبلی میں پہنچانے کیلئے اپوزیشن کا سہارا لیا _
جہاں 18 گریڈ کے آفیسر کے ہوتے ہوئے بھی ،14 ،15 ،17 گریڈ کا آفیسر اس پوسٹ پر ایکٹنگ کام کرتا ہوں تو وہ شہر یا گاوں کا حال اسی طرح ہوگا جس طرح آج آواران کا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں