پڑھایئے مار سے نہیں، پیار سے

تحریر.۔ نواز علی جلبانی
چلیں آج میں آپ کو اسکول کے زمانے کی کچھ باتیں بتاتا ہوں. یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں دوسری یا تیسری کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا۔ اسکول جانے کا بالکل بھی دل نہیں کرتا تھا۔ میں ہمیشہ صبح جب بھی اٹھتا تو پیٹ درد یا سر درد کا بہانہ کرکے امی کو بتا دیتا کہ میں آج اسکول نہیں جاں گا لیکن ابو جی پڑھائی کے حوالے سے بڑے سخت تھے تو پھر آخرکار مجھے صبح اٹھ کر جانا ہی پڑتا تھا۔ ایک بات اور بھی تھی کہ ابوجی خود ساتھ اسکول جاتے تھے کیونکہ میں جس اسکول میں پڑتا تھا ابو جی بھی اسی اسکول میں پڑھاتے تھے۔گورنمنٹ اسکول تھا۔ہمارے اسکول کی وردی کالے رنگ کی ہوا کرتی تھی۔کلاس میں ٹاٹ پر بیٹھتے تھے۔ جوتے کلاس کے باہر لائن سے رکھتے تھے۔ بار بار سر میں پیشاب کرنے جاں، سر میں پانی پینے جاں بولتے تھے اور اکثر و بیشتر بہانہ کرکے کلاس سے فرار ہوا کرتے تھے۔سردیوں میں کھلے آسمان بیٹھتے تھے اور زور زور سے سبق یاد کرتے تھے۔آدھی چھٹی کے بعد تختی لکھتے تھے تختیاں لکھتے لکھتے سیاہی ختم ہو جاتی تھی تو دوسروں سے مانگ لیتے تھے۔ 10 روپے میں سادہ کپڑے والا بستہ ہوتا تھا اور 5 روپے والی کاپیاں ہوتی تھیں۔ پہلی مار مجھے تب پڑی جب میں تختی لکھ رہا تھا تو ایک بچہ میرے پاس سے گزرا اور اس کا پاں میری تختی پر لگا جس کی وجہ سے تختی میں سیاہی لگی۔ پھر جب میں استاد محترم کے پاس گیا تختی چیک کروانے تو جناب استاد نے وہ تختی میرے سر پر ماردی اور تختی ٹوٹ گئی اور اس ہی ٹوٹی ہوئی تختی سے مجھے بہت مارا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ استاد بہت غصہ کرتے تھے وہ مجھے بالکل بھی اچھے نہیں لگتے تھے۔ایک دن کیا ہوا استاد محترم نے صبح سویرے ریاضی کے سوالات بلیک بورڈ پر لکھ دیے اور مجھے کہا ان سوالات کو حل کرو۔اب ریاضی مجھے کبھی بھی نہیں آتی تھی میں پریشان کہ اب میں ان سوالات کو کیسے حل کروں۔ کانپتے پاں اور جسم پسینے سے شرابور بلیک بورڈ تک پہنچا، کلاس میں بالکل خاموشی تھی سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، بالآخر کیا ہوا کہ وہ سوالات مجھ سے حل نہ ہو پائے۔سوالات حل نا کرنے پر استاد محترم کو بڑا غصہ آیا۔ وہ میرے قریب آئے اور میرے کان کے نیچے ایک زوردار تھپڑ رسید کردی اور وہ چماٹ بہت تیز لگی تھی کہ جس کی وجہ سے میں بیہوش ہوگیا تھا۔ میرے سر پر پانی ڈالا گیا مجھے ہوش میں لایا گیا میں نے دیکھا میرے استاد محترم کے چہرے پر پسینہ گھبراہٹ پریشانی پشتاوا سب کچھ دکھ رہا تھا۔خیر اس واقعے کے بعد میں نے یہ دیکھا کہ میرے استاد محترم نے مجھے کبھی پھر نہیں مارا مارتے بھی کیوں! پتا تھا استاد کو کہ اگر میں اس کو دوبارہ ماروں گا تو یہ بے ہوشی کی ایکٹنگ کرے گا۔اس بے ہوشی کی ایکٹنگ نے اسکول کے زمانے میں میرا بڑا ساتھ دیا۔ایک اور استاد تھے جو صبح دعا کے بعد حدیث سنایا کرتے لیکن انہوں نے میرے سامنے ایک بچے کو کلاس میں اتنا زیادہ مارا کہ اسکے بازو کی ہڈی ہی تھوڑ دی تھی پھِر اس پچے نے استاد کی سخت مار کے خوف و ڈر کی وجہ سے اسکول ہی چھوڑ دیا۔وہی بچہ اب بڑا ہوچکا ہے میری اکثر ملاقات ہوتی ہے اس نے بازار میں برف کا ٹھیلا لگایا ہوا ہے۔اب وہ برف بیچتا ہے۔چھٹی کلاس میں ایک معاشرتی علوم کے استاد محترم ہوتے تھے کہانی یہ ہوتی تھی کہ سال کے آخر میں امتحانات سے ایک مہینہ پہلے ٹیسٹ ہوتے تھے اور ٹیسٹ جس کا غلط ہوتا تھا استاد محترم مرغا بنا دیتے تھے۔ اسکول میں پودے لگے ہوتے تھے تو وہاں پر پانی کا پائپ ہوا کرتا تھا۔جناب استاد محترم بچوں کو اس پائپ سے مارا کرتے تھے۔۔ وہ پائپ جب کسی بچے کی پیٹھ پر لگتا تھا تو پورے اسکول میں آوازیں گونجتی تھیں۔ مارتے اور ساتھ میں گالیاں بھی سننے کو ملتی تھیں۔۔۔۔۔۔ریاضی تو مجھے آج تک نہیں آتی مجھے یاد میں آٹھویں کلاس میں تھا تو وہاں پہلی کلاس ریاضی کی ہوا کرتی تھی پھر استاد محترم ریاضی کی کسی مشق سے ایک سوال سمجھاتے تھے اور پھر ہمیں کہتے تھے کہ اب کل اس مشق کا مکمل ٹیسٹ ہوگا۔ اب مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ اس مشق میں مختلف سوالات ہوتے تھے اب سوالات کسی کو سمجھ ہی نہیں آتے تو وہ تیاری کیا کرتے۔۔خیر اگلے دن صبح ٹیسٹ لیا جاتا تھا اور 40 کی تعداد میں صرف 2 یا 3 بچے اس ٹیسٹ میں پاس ہوتے تھے پھر جو ٹیسٹ میں فیل ہوجاتے تھے وہ اسکول کے گرانڈ کے بیچ میں مرغا بنتے تھے اور ہر گزرنے والا شخص ہمیں دیکھتا تھا اور کھبی کھبی کوئی آوازیں بھی لگاتا تھا۔ استاد محترم کے پاس پہلے سے ہی ایک لال پری نامی ڈنڈا ہوتا تھا جوکہ اسکول میں بہت مشہور تھا۔ ڈنڈے کو لال رنگ کا ٹیپ لگا ہوتا تھا۔ جس ڈنڈے سے استاد ہر بچے کو مارتے تھے ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ جانوروں کی طرح مارا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔ ایک استاد کی کہانی تو بالکل ہی الگ تھی وہ ہفتے میں کسی دن ہماری کلاس کو باہر گرانڈ میں بلاتے تھے اور ہمیں انگریزی گرائمر کا پوچھتے تھے اور غلط جواب دینے پر وہ بھی ہمیں بہت مارتے تھے سچ بات تو ہے جب بھی مار پڑی تو کسی بھی بچے کے دل سے دعا نہیں نکلتی تھی۔ اسکول میں ایسے بھی استاد تھے جو پیار سے پڑھاتے تھے پیار سے سمجھاتے تھے یقین مانے کلاس ختم ہوجاتی تھی مگر ہمیں پتا ہی نہیں چلتا تھا ہاں کبھی کبھی وہ بھی مارتے تھے لیکن مارنے کے بعد وہ شفقت سے پیار سے سمجھا دیتے تھے پھر اس مار کو ہم بھول جاتے تھے۔گورنمنٹ اسکول کے اساتذہ بچوں کو بہت مارتے تھے اور آج بھی اسکول کے اساتذہ بچوں کو بہت مارتے ہیں۔ سپارک کی رپورٹ کے مطابق 35000 بچے سزا کی وجہ سے سالانہ اسکول چھوڑ رہے ہیں، بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان 182 ممالک میں سے 154ویں پوزیشن پر ہے۔زندگی ٹرسٹ کے صدر اور معروف گلوکار شہزاد رائے نے بچوں پرتشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی عدالتی فیصلے کے بعد کوئی بھی ٹیچر بچوں کو مار نہیں سکتا۔ اگر کسی بچے کی پٹائی یا تشدد ہوتا ہے تو اس ٹیچر کے خلاف قانونی اقدامات کیے جائیں گے۔ میرا لکھنیکا مقصد یہ بالکل نہیں کہ میں اپنے اساتذہ کو برا بھلا کہوں بلکہ جو طریقہ تھا وہ غلط تھا۔اس طرح اسٹوڈنٹس کو مارنا نہیں چاہیے تھا کیونکہ مار مسئلے کا حال نہیں ہے۔دنیا کی بہترین ریسرچ ہے کہ تشدد سے تشدد میں ہی اضافہ ہو جاتا ہے، بچوں کو مارنا ان کی ذہنی نشونما کے لیے نقصان دہ ہے۔یہاں پر ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ استاد کی مار شاگرد کے مثبت اور روشن مستقبل کی ایک کرن ہوتی ہے۔ اگر میں اپنی مثال آپ کے سامنے پیش کروں تو مجھے استاد کی مار نے ہی اس قابل بنایا ہے کہ آج اپنے علاقے، اپنے بلوچستان اور اپنے ملک کے بہتر مستقبل کے لیئے کام کر رہا ہوں۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ استاد کی ڈانٹ، مار اور استاد کا بچوں پر جسمانی تشدد کرنا، ان میں فرق ہے۔ میں اپنی زندگی کے ہر مقام پر بچوں پر جسمانی تشدد کے خلاف آواز بلند کرتا رہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں