زیارت واقعہ پر سیاسی یتیم اپنی نوکری پکی کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بی این پی

کوئٹہ (انتخاب نیوز) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ چند دنوں سے زیارت کے دلخراش واقعہ پر سیاسی یتیم اپنی نوکری پکی کرنے اور مستقبل میں مراعات حاصل کرنے خاطر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرر ہے ہیں ماضی کی طرح من گھڑت اور بے بنیاد باتیں کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں انہیں علم ہونا چاہئے کہ اکیسویں صدی میں بلوچستان کیا ملکی و بین الاقوامی سطح پر یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اہمیت کا حامل ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ماضی میں آمر و سول ڈکٹیٹروں کے ادوار میں بھی ایسے درجنوں لوگ یہی رونا روتے تھے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ نہیں اگر ہے تو چند ہی لوگ ہیں لیکن پی ٹی آئی حکومت میں بی این پی نے چھ سو سے زائد لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا ان کی اکثریت اور ہزاروں افراد کی جو لسٹ ہے وہ ہنوز ریکارڈ پر موجود ہے اور ہزاروں افراد مکمل ڈیٹا بلوچستان نیشنل پارٹی کے موجود ہے جو لاپتہ ہیں اس سلسلے میں ارباب و اختیار و اعلیٰ سطحی فورمز پر بی این پی نے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق موقف رکھا وہ کسی سے چھپا نہیں، بی این پی بلوچستان کے حالیہ بحران کو یہی قرار دیا کہ لوگوں کا اغواء ہونا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل نے دو ٹوک الفاظ میں چار سال میں دونوں حکومت پر واضح کیا ہے کہ پارٹی کے سامنے لاپتہ افراد کا مسئلہ اہم ہے اس کو حل ہونا چاہئے لاپتہ افراد کی بازیابی‘ یا قانون سازی سے متعلق مرکزی کابینہ نے کمیٹی تشکیل دی ہے اس پر بھی اسلام آباد کے ایوان میں ہم نے واضح موقف اختیار کیا کہ ہمیں مراعات نہیں ہمیں ہمارے لاپتہ افراد بازیاب کر کے دیں اب جبکہ اس معاملے پر دو تین اجلاس ہو چکے ہیں اس میں پارٹی کا موقف واضح ہے کہ قانون سازی کی جائے تاکہ کسی بھی شخص کو کوئی لاپتہ نہ کر سکے اگر کوئی شخص کسی بھی جرم میں ملوث ہے تو عدالتیں موجود ہیں ان میں کیسز چلائے جائیں اور سزائیں دی جائیں مگر کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی شخص کو ماورائے قانون و عدالت جبری اغواء کر کے لاپتہ کر دے ہماری کوشش رہی ہے کہ ہم بلوچستان کے مسئلے کو حل کرانے اور مذاکرات کے راستے پر لے جائیں تاکہ لاپتہ افراد بھی بازیاب ہوں اور بلوچستان کے بحران میں کسی حد تک کمی آ سکے مگر زیارت واقعہ کے بعد چند لوگ متحرک و فعال ہوئے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کچھ مفاد پرست‘ موقع پرست دھڑے یہ نہیں چاہتے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو الزام در الزام کی روش سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا مشرف کی غلط پالیسیوں پر دلائل دینا اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کیلئے غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا قابل مذمت قابل افسوس ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک ایسا کمیشن تشکیل دیا جاتا جو بلوچستان کے معاملات کا جائزہ لیتا کہ اس نہج تک کیوں پہنچے ماضی میں طاقت کے استعمال کے نتائج سے سبق سیکھا جائے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے ایک بار پھر ایسے لوگوں سے پریس کانفرنسز کرائے اور ہدایات دیئے جا رہے ہیں جو جان کر بلوچستان کے مسئلے کو پیچیدہ بنانے کی سازشوں میں صفحہ اول میں رہتے کمیشن یہ بھی تحقیقات کرے یہ ان مفادات پرست عناصر کے دو دہائیوں میں کیا کردار رہا ان کے کیا کیا فائدہ حاصل ہوئے اور انہوں نے جھوٹ کاسہارا کیوں لیا بیان میں کہا گیا ہے کہ بی این پی کا موقف یہ ہے کہ اعلیٰ سطحی کا کمیشن عدالت عظمیٰ کے سطح پر تشکیل دیا جائے اس اہم اور احساس مسئلے سمیت ماضی میں جتنی ناانصافیاں ہوئی اور مفاد پرستوں کا جو کردار رہا انہوں نے طاقت کا سہارا لے کر اپنے ہی لوگوں کو نیست و نابود کرنے میں کسی کسر سے دریغ نہیں کیا ہم آمر‘ سول ڈکٹیٹروں‘ جتنے آپریشن ہوئے ان کے محرکات اور حقائق کو سامنے اور منظر عام پر لانے کیلئے اعلیٰ کمیشن کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ بلوچستانی عوام اور ملک بھر کے عوام کو پتہ چل سکے کہ وہ عناصر کون سے تھے کہ آج بلوچستان کے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں لاپتہ افراد کے لواحقین سڑکوں پر ہیں مگر حقائق کو چھپانے کیلئے کرائے کے لوگوں کا سہارا لیا جا رہا تاکہ عوام کا اعتماد اٹھ جائے ارباب و اختیار انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں بی این پی بلوچستان کی قومی سیاسی جماعت ہے جو ہمیشہ اصولوں کے تحت سیاست کر رہی ہے جب تک تمام لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہوتے اور اپنے گھروں تک نہیں پہنچتے بی این پی زیادتیوں‘ مظالم‘ انسانی حقوق کی پامالی پر آواز بلند کرتی رہے گی اور طاقت کے استعمال کی مخالفت کرتی رہے گی پارٹی نظریاتی جماعت ہے ہمارے لئے بلوچ اور بلوچستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی اہمیت کی حامل ہے عوام سے زیادتیوں پر خاموش نہیں رہیں گے بلکہ جدوجہد کرتے رہیں گے سیاسی بونوں کے کردار سے عوام بخوبی واقف ہیں ایرانی حکام کی جانب ڈی پورٹ کرنے والی لسٹوں میں ظہیر نامی شخص کا نام تک نہیں اس کی بھی تحقیقات کی جائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ کب موصوف گرفتار ہوئے اور ڈی پورٹ ہوئے کیونکہ ریکارڈ پر ایسی کوئی بات موجود نہیں کہ موصوف ایرانی قید میں تھے موصوف کے وکلاء نالائق اور ناتجربہ کار تھے ان کی اپنی ہی پریس کانفرنس میں کافی تضادات موجود ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں