فرسودہ تعلیمی نظام اور پاکستان کا مستقبل

حبیب الرحمان
سیکھنا، سکھانا، سوچنا، سمجھنا، اپنا آپ کو پہچاننا ، تحقیق ، شخصیت میں شعور کا قیام اور فہم و فراست کے ذریعےمسائل کا حل ، لفظ تعلیم کا مختصر احاطہ کرنے کے لئے کافی ہے ماہرین تعلیم اور اہل علم و دانش اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن پاکستان کا نطام تعلیم ان تمام عوامل کے برعکس صلاحیتوں کے بجائے نمبروں کی بنیاد پر طلبا کی جانچ کے طریقہ پر عمل پیرا ہے ۔ اور اسی فارمولےسے گزر کر ناکامی اور کامیابی ہزاروں طلبا کا مقدر بنتی ہے۔انگریز چلے گئے لیکن انگریزوںکامتعارف کردہ نظام تعلیم اب بھی جوں کا توں ہے ۔ آج برطانیہ میں ایک جدید نظام تعلیم قائم ہے۔ جبکہ ہم اکیسویں صدی میں بھی اس فرسودہ نظام تعلیم سے ماہرین اور تخلیق کاروں کے بجائے بڑی تعداد میں آپریٹرز ،اور کلائنٹس پیدا کر رہے ہیں۔ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ارباب اختیار اس مسئلہ سے یک دم بے خبر ہیں یاخاکم بدہن شاید دانشتہ طور پر وہ اس نظام میں تبدیلی نہیں چاہتے۔
تب ہی تو آج تک کسی حکمران اور نا ہی کسی سیاست دان نے اس متعلق کوئی اقدامات کیے،عوامی نمائندوں کی جانب سےبھی اس موضوع پر کوئی قانون سازی دیکھنے کو نہیں ملتیالبتہ مایوسی ہوتی ہے کہ آخر ہم کب تک پاکستان کے ٹیلنٹ کو اس فرسودہ نظام تعلیم کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔ تعلیمی اداروں میں تجرباتی تدریس کے بجائے ہم گزشتہ دو صدیوں سے اب تک اپنے نظام تعلیم پر تجربات کرتے نہیں تھکے اور نہ ہی وہ نظام تعلیم قائم کرپائے جو مسلمانوں کے عروج کے دور میں مستعمل تھا، آج مغرب تیزی سے اس طرف بڑھ رہا ہے، جس میں بچوں کو کتابی کیڑا بنانے اور رٹے کی فرسودہ روایت کا پاس رکھنے کی بجائے بچوں کے رجحان اور میلان کو دیکھتے ہوئے خود کر کے سیکھنے(Learning by doing) پر توجہ دی جا رہی ہے ترقی یافتہ ممالک میں امتحانی نظام، گریڈ سسٹم اور امتیازی پوزیشنوں کا رجحان رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے، گوگل کرکے آپ حیران ہونگے کہ آج دنیا میں بچوں کی تعلیم کے کتنے ہی غیر روایتی طریقے متعارف کروائے جاچکے ہیں۔کلاس روم کانسپٹ کو اسٹوڈیو کانسپٹ میں بدلا جارہا ہے جہاں ٹیلنٹ پروڈیوس ہورہا ہے ، بچوں کی چھپی ہوئی صلاحیتں ابھر کر باہر آرہی ہیں ، استاد اور شاگرد کے درمیان مکالے سے بچوں کی خود اعتمادی بڑھ رہی ہے لیڈر شپ کوالٹی جنم لے رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان میں ہم پوزیشن حاصل کرنے کی پوزیشن پر تاحال قائم ہیں۔ گدھے ، گھوڑوں کی طرح بستوں کا بوجھ اٹھائے ہمارے طلباء نمبروں کہ دوڑ میں لگے ہیں جسے جیتنے کے لیے اکثر و بیشتر طالبعلم نقل کا سہارا لے بیٹھتے ہیں۔ اب بیچارہ مرتا کیا نا کرتا ورنہ گھر والوں کو کیا جواب دیتا، اور کینٹیں والے انکل کا تو بڑا فیورٹ ہوں چلوں انہیں چھوڑو باقی استاد اور طلباء کیا کہیں گے۔ سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہم نے کوالٹی کے بجائے کوانٹٹی پر فوکس رکھا ہے تب ہی پاکستانی معاشرے کے 78 فیصد افراد ابھی تک آوٹ آف بکس سوچنے سے قاصر ہے۔ معاشرے کی طرف سے پیدا ہونے والے اسی خوف کی وجہ سے نمبروں کے حصول نے طلباء کو ہائی جیک کررکھا ہے جس سے اجتماعی کامیابی کے بجائے انفرادی کامیابی کا رجحان بڑھ رہا ہے اور کئی بچے والدین اور معاشرے کے ڈر سے خود کشی کر بیٹھتے ہیں۔ باقی رہی سہی کسر اساتذہ نے نکال دی کہ جن پر نصاب سے ہٹ کر سوال کا جواب دینا گراں گزرتا ہے، گر کر سنبھلنا زندگی کا حصہ ہے لیکن ہمارے ہاں فیل ہونا شرمناک فعل ہے ہاں اگر بچہ کوئی عقل کی بات کردے تو محدود ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے انا کا مسئلہ سمجھ کر استاد یا استادنی کا بچہ پر برسنا بالکل بھی برا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ عقل کل ہیں منطق اور دلائل کے بجائے نمبر کاٹنے کی دھمکی اور ساتھی طباء کے سامنے بچے کی عزت نفس کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔کیرئیر کاونسلنگ کے فقدان اور سبجیکٹ سکوپ کے نام پر ہر سال ہزاروں طلبا عدم دلچسپی والے مضامین کا انتخاب کر کے ناکامی کا سامنا کرتےہیں جسکے نتیجے میں فرارکا راستہ اختیار کرنے کے لئے نشہ اور دیگر برائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس سے انکا مستقبل مزید تاریک ہوتا چلا جاتا ہے ان تمام عوامل کی موجودگی ہمیں اشارہ دیتی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے ذی شعور معاشرہ تشکیل دینے کے بجائے ناسور پیدا کررہے ہیں بچوں کی صلاحیتوں سے درست طور پر فیضیاب ہونے کے لیےملکی نظام تعلیم میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں