آن لائن امتحانات اور ہماری انتظامیہ

تحریر؛جہانزیب شاد
کرونا کے باعث ملتوی ہونے والی سرگرمیوں نے جہاں ہر طبقے کو متاثر کیا ہے وہاں کئی تعلیمی سرگرمیاں یا تو ملتوی کی گئی ہیں یا پھر ایچ ای سی کے زبانی جمع خرچ پہ اکتفاء کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں اب تک کسی حکومتی ادارے نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے.جس سے طلباء کا انتہائی قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔ کچھ دنوں پہلے بلوچستان یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک Circular جاری کیا گیا تھا کہ طلباء آن لائن ہونے والی کلاسز اور انٹرنیٹ سہولیات بارے اپنی رائے دیں۔ یہ تو حتمی طور پہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس سرکلر کے نتیجے میں کیا رائے سامنے آئی لیکن یورنیورسٹی انتظامیہ کہ اس ناصحانہ قدم سے ایک سوال نے سر اٹھایا کہ وہطلبہ جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت جزوی یا کلی کسی صورت موجود نہیں وہ اپنی رائے کا اس Circular میں کیسے اظہار کرتے؟مزید برآں PTA کی ویب سائٹ کے مطابق محض31.19%فیصد پاکستانیوں کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے جبکہ68.8% پاکستانی اس سہولت سے محروم ہیں اور اعداد و شمار میں جن لوگوں کی رسائی ظاہر کی گئی ہے اس میں ایک بہت بڑی تعداد ان صارفین کی ہے جو دفتری مقاصد کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی عدم موجودگی میں آن لائن امتحانات و کلاسز محض ایک دیوانے کا خواب ہیں۔راقم الحروف خود لاء کا طالب علم ہے اورطلبہ کہ مسائل سے آگاہ ہے۔ کرونا سے جہاں تمام طلبہ متاثر ہوئے ہیں وہاں لاء کے طلبہ کہ متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ کیونکہ پورے پاکستان کی یورنیورسٹیز میں لاء کے ماسوائے ماسٹرز کے تمام Faculties کو سمسٹر سسٹم میں تبدیل کیا گیا اور ان کہ امتحانات سمسٹر سسٹم کہ تحت ہوتے رہے ہیں جبکہ لاء کو Annual system کہ تحت چلایا گیا۔ مزیدبرآں دسمبر میں ہونے والے امتحانات کو اپریل میں چار ماہ کی تاخیر سے لیا جانے لگا اور کرونا کے باعث امتحانات ملتوی کرکے طلباء کو تختہ مشق بنایا گیا۔لاء کے طلباء کا ایک اور مسئلہ جو ان کے تعلیمی مقدمہ کو منفرد بناتا ہے وہ انکے سہ سالہ ڈگری مکمل ہونے کہ بعد کا گیٹ ٹیسٹ ہے۔ جس میں ایچ ای سی کی پھرتی کا یہ عالم ہے کہ لاء کا رزلٹ بعد میں آتا ہے جبکہ گیٹ کا امتحان پہلے ہوتا ہے۔
جبکہ سمسٹر سسٹم کہ طلباء بھی حکومتی انتظامات کے منتظر ہیں۔ ان کو سمسٹر بریک دیاجائے گا یا آن لائن کلاسز ہونگی؟ ابھی تک کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا۔
مسائل بہت سارے ہیں اور انکے لیے طویل دفتر درکار ہے لیکن میں یہاں طلباء کے کچھ سوالات اور گزارشات سامنے رکھوں گا
اول تو یہ کہ اگر امتحانات نہیں ہوتے تو امتحانات کی مد میں وصول کی گئی فیسیں واپس کی جائیں گی یا نہیں؟
دوم سالانہ فیس میں ٹیوشن فیس کے علاوہ ٹرانسپورٹ وغیرہ کی مد میں اضافی فیسیں بھی لی جائیں گی؟یہ اور اس جیسے سوالات جواب طلب ہیں۔
ہم یورنیورسٹی انتظامیہ سے گزارش کرتے ہیں کہ مندرجہ ذیل سفارشات کو فی الفور Consider کیا جائے۔
اگر یورنیورسٹی امتحانات لینے کا فیصلہ کرتی ہے تو SOPs بناتے وقت طلباء کے ایک وفد کو اپنے مطالبات پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور ان کو درپیش مسائل کو حل کیا جائے۔
اول تو SOPs طے کرکے تعلیمی ادارے کھول دیے جائیں۔اگر حکومت کی طرف سے امتحانات لیے جاتے ہیں تو حفاظتی انتظامات کرکے جلد از جلد اقدامات کیے جائیں مزید یہ کہ آن لائن امتحانات کا کوئی میکنزم موجودنہیں ہے۔ اس ضمن میں طلباء کہ لیے روایتی امتحانات ہی ممکن ہونگے۔امتحانات نہ ہونے کی صورت میں 3rd year کے طلباء کو اعزازی ڈگری دی جائے اور سیکنڈ ائیر کہ طلبہ کو مساوی یا سابقہ نتائج کی بنیاد پہ Promote کیا جائے۔ چند طلباء کی جانب سے ایک اور تجویز بھی پیش کی گی کہ سیکنڈ اور تھرڈ ائیر کے امتحانات اگلے سال ایک ساتھ منعقد کیئے جائیں۔ اور سیشن لیٹ ہونے کی صورت میں اسناد میں وہی سیشن درج کیا جائے جس کی بنیاد پہ ان کا داخلہ ہوا تھا۔ فیسوں میں اضافی رقم کو آن لائن کلاسز ہونے کی وجہ سے کم کیا جائے اور آن لائن کلاسز کہ لیے جلد از جلد طریقہ کار وضع کرکے طلباء کو اعتماد میں لیا جائے۔ارباب اختیار سے طلباء اپنے حقوق کے ضمن میں مطالبہ کرتے ہیں کہ مذکوربالا گزارشات پہ عمل درآمد کیا جائے بصورت دیگر ہم اپنے تعلیمی حقوق کے حصول کے لیے دیگر اقدامات کرنے پہ مجبور ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں