میری نظر

تحریر : نشتر داﺅد خان کاکڑ
انسانی تاریخ باہمت انسانوں کے کارناموں اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ لاتعداد سرفروشوں نے انصاف کے حصول کے خاطر جابر قوتوں سے مظلوم انسانوں کو نجات دلانے اور انہیں انسانیت کا جائز مقام دلانے میں قابلِ فخر کارنامے انجام دیے ہیں۔ اسی لیے انسانیت کے تمام ایسے محسن پوری انسانیت کا مشترکہ ورثہ شمار کیے جاتے ہیں۔ انسانی سماج میں فرد کو فرد اور قوموں کو قوموں کی غلامی سے نکالنے، ان کے سیاہ ماضی کو تابناک اور روشن مستقبل میں تبدیل کرنے اور بنی نوع انسان کو امن، قومی آزادی اور جمہوریت کے ثمرات سے مستفید کرنے کی جدوجہد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے افراد کا جنم تاریخی ضروریات کے تحت ہی ہوتا ہے۔
جب بھی کسی قوم پر برے حالات آتے ہیں اور وہ کسی اور کے زیرِ تسلط آجاتی ہے، تو اس قوم میں چند ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جو آزادی کی راہ میں مادرِ وطن کے خاطر اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرکے قوم و ملت کی آزادی کا سبب بنتے ہیں۔
تاریخِ اقوامِ عالم کو اگر پرکھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ دنیا میں بڑی بڑی باصلاحیت ہستیاں گزری ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کو دوسرے مظلوم طبقوں کی فلاح و بہود کے لیے وقف کردیا۔ ایسا ہی ایک روشن ستارہ جو برِصغیر پاک و ہند کے سیاسی افق پرنمایاں رہا، یہ عظیم رہنما خان عبدالصمدخان اچکزئی تھے۔
7 جولائی 1907ءکو عنایت اللہ کاریز گلستان میں نور محمد خان کے گھر عبدالصمد خان اچکزئی کی پیدائش ہوئی۔ یہ ایک ایسا خاندان تھا جو پچھلے 5 پشتوں سے وطن کی آزادی اور دفاع کے جنگوں میں پیش پیش رہا۔ یہ اس برخوردار خان کا خاندان تھا جو احمد شاہ ابدالی کے 3 خاص جرنیلوں میں سے ایک تھے۔ عبدالصمد خان اچکزئی کی سیاسی زندگی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب وہ جماعتِ ہشتم کے طالب علم تھے اور انہوں نے تحریکِ خلافت کا حصہ بنتے ہوئے طلبہ کا جلوس نکالا تھا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی مزاحمتی سیاست کرنے والے عبدالصمد اچکزئی کو بار بار قید و بند کی تکلیفیں برداشت کرنی پڑی۔ اس سلسلہ میں انہیں پہلی بار 1929ءمیں گرفتار کیا گیا۔ دسمبر 1929ءکو لاہور میں کانگریس کیخلاف نوجوان بھارتی سبھا اور کیرتی کسان کے سالانہ اجلاس منعقد ہو رہے تھے۔ خان اپنے دو ساتھیوں قاضی محمد قاہر خان اور عبید اللہ خان کے ساتھ لاہور گئے، لاہور کے باشعور ممتاز مفتی مظہر، مفتی چوہدری برکت علی، اشفاق احمد، محمود نظامی، مسعود قریشی، انجم نذر وڑائچ وغیرہ بلوچ، سرائیکی، سندھی ان تنظیموں کے اجلاس کے مقررین میں سے ڈاکٹر سیف الدین اور کاکا صنوبر حسین مومند کی تقریریں انہیں زیادہ پسند آئیں۔
1934ءمیں عبدالصمد خان اچکزئی گرفتار ہوئے، تو مولانا ظفرعلی خان نے 9 فروری 1934ءکو ”انقلابِ بلوچستان“ کے نام سے نظم لکھی جو زمیندار لاہور کے صفحہ اول پر شائع ہوئی۔ اِس نظم میں ا±نہوں نے فرمایا:
عبدالعزیز کرد پر ایوبیوں کو فخر
عبدالصمد کی ذات پر نازاں اچکزئی
پھر کررہے ہیں بادشاہوں سے مقابلہ
پتھر جنہوں نے پیٹ پر باندھے کئی کئی
خان شہید اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ یہ جدوجہد ایک سیاسی پارٹی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے 30 مئی 1938ءکو انجمن وطن بنائی جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کیا۔ اس وقت کے اخباری بیانات کے مطابق 1939ءمیں انجمن وطن کے یوم تاسیس کے حوالے سے منعقد تقریب میں 10,000 کے قریب افراد شریک تھے۔ تقسیمِ ہند تک خان شہید اسی پلیٹ فارم سے شرکت کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد خان شہید نے 1954ءکو ”ورور پشتون“ بنائی جو کہ 1957ءمیں نیشنل عوامی پارٹی میں تحلیل ہوئی لیکن ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد جب نیپ نے اپنے منشور کی خلاف ورزی کی اور لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے کے بجائے سابقہ برٹش بلوچستان کو بلوچستان نامی صوبے کا حصہ بنایا، تو خان شہید نے اپنا راستہ الگ کرتے ہوئے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
خان صمد خان سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے ادیب اور صحافی بھی تھے۔ ان کے ادبی خدمات (ترجمے) کچھ یوں ہیں:
”آزادی کا ا±فق“ کتاب "Future of Freedom” کا ترجمہ۔
٭ ”ترجمان القرآن“ ابو الکلام آزاد کی کتاب کا پشتو ترجمہ ہے جو جیل میں لکھا۔
٭ ”کیمائے سعادت“ امام غزالی کی کتاب کا پشتو ترجمہ۔
٭ ”سیرت النبی“ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب کا ترجمہ۔
٭ ”زما ڑوند او ژوندون“ عبد الصمد خان نے اپنی زندگی میں درپیش حالات و واقعات کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔
”صمد اللغات“ پشتو لغت جو انہوں نے کوئٹہ جیل میں لکھی۔
آپ نے انجمن وطن اور ورور پشتون سے لے کر نیپ پشتونخوا کے قیام تک جس اولوالعزمی سے عوامی تحریک کو منظم کرنے کے لیے اَن تھک کام کیا اور جس بلند حوصلے سے قید و بند کے کم و بیش 32 ..35 سال گزارے، وہ مظلوم اقوام کی تاریخ میں ہمیشہ باعث فخر رہیں گے۔ خان عبدالصمد خان اچکزئی آزادی اور جمہوریت کے اَن تھک اور جانباز سپاہی تھے۔ دو دسمبر 1973ءکو صبح 4 بجے جب وہ کوئٹہ میں شارع جمال الدین افغانی پر اپنی رہائش گاہ میں سورہے تھے۔ دو دستی بم گرا کر ان کو شہید کیا گیا اور 3 دسمبر کو اس خطہ کی تحریکِ آزادی کے بطل جلیل کو کم و بیش ساٹھ ہزار افراد نے ان کے آبائی گاﺅں غازیوں کی دھرتی انقلابی گلستان میں شہدا کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا۔
وطن پر مر مٹنے والے اس عظیم انقلابی خان صمد خان کے نظریات، فکر، سوچ آج بھی ان لوگوں سے برداشت نہیں ہوتے جو اینٹی اسٹیٹ، غیر جمہوری، غیر قانونی اس ملک کے بلوچ، سرائیکی، پنجابی یا اردو اسپیکنگ پر ہونے والے ظلم پر خان عبد الصمد خان کی طرح ظلم کیخلاف یعنی جو پارلمینٹ کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، انصاف و احتساب اپنے قانونی اختیارات اور غیر جمہوری، غیر قانونی استعمال کرنے والوں کیخلاف اٹھنے والی آوازوں کو ہمیشہ کیلئے صفحہ ہستی سے مٹائے جاتے ہیں جس کی مثالیں پاکستان کے ہر شہر صوبے میں ملیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں