مشر ایک ہاتھ سے تین ہند وانے نہیں اٹھائے جاسکتے

تحریر؛ محمد صدیق کھیتران
ایک حالیہ تجزیے کے مطابق 1988 سے 2008 تک دنیا نے بہت صنعتی ترقی کی۔اس کا اثر ترقی پذیرمعاشروں خاص کر چین،ہندوستان، کوریا لاطینی امریکہ اور دیگر اشیا ئی ممالک میں بہت پڑا ہے۔وہاں پر غربت میں کمی آئی ہے۔کیونکہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری، تعلیم اور صنعت کاری کا پھیلاو ان علاقوں میں ہوا ہے۔دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک میں غربت بڑھی ہے۔بلکہ سفید فام متوسط طبقوں کی آمدنی میں گراوٹ ہوئی ہے اور اس کے پھیلاو میں 3.25 فی صد کامزید اضافہ ہوا ہے۔وہاں پرروائیتی سوشل ڈیموکریٹک جماعتیں انتخابات میں 15فی صد تک ووٹ حاصل کر پارہی ہیں۔ان ممالک میں فرانس،خود امریکہ،جرمنی،اٹلی، ہالینڈ اور یونان تک شامل ہیں۔ترقی یافتہ دنیا کا پہلے بھرکس 2008 کے مالیاتی بحران نے نکالا باقی کی کثر کرونا کی وبا نے پوری کردی۔عالمی بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وبا سے عالمی جی ڈی پی کو انتا نقصان ہوا کہ اس سے نکلنے میں 2030 تک کا عرصہ نکل جائے گا۔ایسے میں چاہیئے تو یہ تھا کہ طبقاتی سیاست کو جگہ ملتی مگر پاپولر سیاست دنیا پر چھا گئی ہے۔ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بائیں بازوں کے لوگ درمیانے اور غریب طبقے کو اپنی سماجی ناہمواری کے بارے میں سیاسی تربیت دیتے ہیں وہ جنوبی افریقہ میں لڑے فائدہ ایک عظیم قوم پرست نے اٹھایا۔وہ ہندوستان میں لڑے اور پھانسیاں جھولیں مگر فائدہ ہندوستان کے عظیم قوم پرستوں نے اٹھایا۔پورے یورپ اور لاطینی امریکہ میں پچھلے ایک سو سال سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔اب بھی 2016 میں وال اسٹریٹ نیویارک میں معاشی ناہمواری کے خلاف سب سے پہلا اور توانا جلسہ اور ریلی دائیں بازو کے سیاسی ورکروں نے نکالی تھی۔اس کے بعد "چائے پارٹی”Tea party?? کی ریلی ہوئی تھی۔بائیں بازو کے ترقی پسند جلسہ ریلی نکال کر عوام کو متحرک کرکے میدان سے چلے گئے مگر چائے پارٹی نے ریپبلکن پارٹی اور کانگریس پر ٹرمپ کی سرکردگی میں قبضہ کرلیا تھا۔ہمارے جیسے ملکوں میں ترقی پسند سیاسی قیادتیں اور دانشور دن رات محنت کرکے غریب علاقوں کے ناخواندہ لوگوں کو دولت کے ارتکاز اور اس سے جڑے مسائل کا درس دیتے دیتے گزر جاتے ہیں۔مگر انہی غریب علاقوں سے قوم پرست جاگیردار یاپھر مذہبی قوم پرست ووٹ لیکر ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔کچھ مذہبی کٹرفرقے جنون میں آکر عجیب غریب تاویلیں بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل کی غلطی کی وجہ سے وحی اپنے اصل مخاطب کو نہیں پہنچ سکی تھی۔یہاں بائیں بازو کی سیاسی جدوجہد کا بھی یہی حال ایک سو سال سے چل رہا ہے۔ابراہم ماسلو
"Abraham Maslo "
نے اپنے Motivational حرارکی ماڈل میں کہاتھا کہ انسانی حرکت میں سب سے بڑا دخل طبعی ضرورتوں یعنی بھوک اور پیاس کا ہوتا ہے۔مگر ہمارے خطے میں یہ دلیل اس وقت کمزور دکھائی دیتی ہے جب لوگ قوم پرستی اور مذہبی جماعتوں کے اندر اپنی تکریم اور شناخت کو محفوظ سمجھتے ہیں۔شاید وہ سمجھتے ہیں کہ بھوک تو آسانی سے کسی کو نظر نہیں آتی مگر عزت اگر کسی ایسے جتھے یاگروپ میں محفوظ رہتی ہے تو وہی دنیاداری ہے۔ وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ روزگار اور بھوک مٹانا حکومتوں کا نہیں کسی اور طاقت کی درد سری ہے۔ہمارے مشر صاحب نے پرسوں ایک بڑے جلسے میں اپنی اندرونی کشمکش کا بڑے جزباتی انداز میں اظہار کیا ہے۔وہ ایک طرف افغانستان کے پشتونوں اور بلوچوں کی دوہری شہریت کو رکھ رہے تھے اور اس کے بدلے میں ڈیورینڈ لائن کا پرانا قضیہ مٹانے کا بتارہے تھے۔دوسری طرف لہولہان اور ننگے پاوں بلوچ ماما کو سوشل میڈیا کے ذریعے کان میں بتارہے تھے کہ ہم علیحدہ صوبہ بنانے کا بھی اعلان کرسکتے ہیں؟؟ وہ ایک اور سچی بات بھی بتارہے تھے کہ اس سرحد سے صرف پشتون اور بلوچ نہیں اپنے بچے پالتے ہیں بلکہ "سر” والوں کے بھی پیزے اور بنگلے یہاں سے بنتے ہیں۔اس کو بند ہونا بھی نہیں چاہیئے۔کیونکہ De- facto تو دونوں طرف ایک ہی ہے اگر وہ عقیدے کے پکے ہیں اور ایمانداری کی خشک روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے ہیں تو بیچ میں اس باڑ کا کیا بکھیڑا کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ہم خیال جنگجو دوسری طرف پہرے داری کررہے ہیں۔پاکستان میں ویسے بھی سر باجوہ آخری ہفتے تک عمران کے پرویزالٰہی اور پی ڈی ایم کے چاچو بمع” پاکستان کھپے” کو ہدایات سے نوازتے رہے۔بھلا پاکستان جیسے ملک میں رہ کر مفت کا de facto اقتدار کون آسانی سے چھوڑتا ہے!! یہ ایک زندگی ملی ہے اس کی بھی چند سانسیں باقی رہ گئی ہیں۔کیا جلدی پڑی ہے کہ اس سیٹ کو اس بڑھاپے میں چھوڑ دیا جائے۔مگر اس سوشل میڈیا نے زندگی اجیرن کردی ہے۔ابھی 12 سو کروڑسے اس مہنگائی کے دور میں کیا بنتا ہے۔یہ تو تین نسلوں کا گزارہ کرنے جوگے بھی نہیں ہے۔خیر زمانہ سنگ دل ہوگیا ہے۔کسی کی محنت کا پاس بھی نہیں رکھتا۔
مشر صاحب کا کہنا ہے کہ 12 نومبر 1893 کی ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ جوکہ کابل میں امیر عبدالرحمان خان اور سر موتمر ڈیورنڈ "Mortimer Durand ” کے درمیان ہوا تھا۔ تب ہندوستان میں باضابطہ طور پر برطانوی تاج کی حکمرانی کا دور 1858 سے 1947 تک رہا ہے۔ اس دوران پاکستان کا وجود نہیں تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے اپنی پنجابی فوجی قوت سے 103600مربع کلو میٹر کا علاقہ بزور طاقت افغانوں کا قبضہ کیا۔اس قبضے کو معاہدے کی شکل دے کر برطانیہ کو آگے کی پیش قدمی سے روکا گیا۔ ڈیورنڈ لکیر کے اطراف ایک طرف بہت بڑی پنجابی قوم آباد رہتی ہے جبکہ دوسری طرف بڑی پشتون قوم افغان Ethnic groups پر حکمران ہے۔پشتونوں کو ہمیشہ سے پنجابی قوم سے قبضے کا خطرہ درپیش رہا ہے۔پاکستان بننے کے بعد انگریز اور ہندوستان کی سیکولر بڑی آبادی مذہب کے نام سے علیحدہ ہوگئی تو پنجاب کی طاقتور اشرافیہ کو تاریخ میں پہلی دفعہ دنیا میں حق حکمرانی مل گیا۔اس نے پہلے بنگالی آبادی کی اکثریت کو دبوچنے کی کوشش کی مگر جغرافیائی مجبوریاں ان کی راہ میں رکاوٹ بن گء۔اس سانحہ میں لاکھوں ہم وطنوں کا خون بہا۔93000 افراد پر مشتمل مسلح فوج قید میں چلی گئی۔یہ معاملہ طے ہوا ہی تھا کہ ادھر ربانی،گل بدین حکمت یار،مسعود پنجشیری کو میجر جنرل بابر اور میجر آفتاب شیر پاؤ و اکٹھا کرکے strategic depth کی فوجی حکمت عملی پر لگا دیا گیا۔1972 میں 1300 افغانی افراد کو پاکستانی سفارت خانے سے ماہوار تنخواہیں دی جاتی تھیں کہ افغانستان میں اسلامی انقلاب لایاجائے۔اس اسلامی انقلاب کو بعد میں سعودی دولت،امریکی اسلحے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے سنی فکر دے کر اپنے ہم وطن مروائے گئے۔صرف پاکستان میں 36000 مذہبی اسکول جن کو پولیٹیکل اصلاح میں pillarisation کہا جاتا ہے کھڑا کیا گیا اور اس سے فارغ کیڈر کو مخصوص جہادی فکر پھیلانے پر لگادیا گیا۔1979 سے جاری اس جنگ میں 40 لاکھ ہم وطن افغان لقمہ اجل بنے۔وہاں پر ایک گھر ایسا نہیں بچا جس کے چار پانچ آدمی اس جنگ کا شکار نہ ہوئے ہوں۔پورے افغانستان کی ایک بھی ایسی اینٹ سالم نہیں بچی جس پر سعودی، پاکستانی اور امریکی ڈالروں اور فوجی ہتھیار سے گولی کا وار نہ پڑا ہو۔ایسے میں سمجھ نہیں آتی!!
مشر کا ڈیورنڈ لائن کو ختم کرنے کا مطالبہ اسلام آباد سے ہے یاپھر وہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے اس کا تقاضا کر رہیہیں۔ اگر تو ان کا مطالبہ اسلام آباد سے ہے۔تو پھر اس کا صحیح اور آسان طریقہ یہ ہے کہ ماضی سے جان سے چھڑانے کے لئے کسی پیش امام کی امامت میں توبہ کی جائے۔یاد رہے توبہ کا قبول کرنا مقتدی اور مولوی دونوں کے بس میں نہیں ہوتا ہے۔مگر بخشیش کا یہی طریقہ بتایا جاتا ہے۔اور اگر عالمی اسٹیبلشمنٹ سے یہ تقاضا ہے تو پھر افغان طالبان کی طرف سے ایک نقشہ سوشل میڈیا میں گردش کررہا ہے جس میں کشمیر سے لیکر گوادر تک خو افغانستان دکھایا گیا ہے۔اس طرح تو ڈیورنڈ لائن کا قضیہ ویسے ہی بیچ سے نکل گیا ہے۔اس de jure قوت کی مشیری کا آپ نے خود اعلان کررکھا ہے۔ لائن کے ہر دو اطراف اس مذہبی انتہا پسند قوم پرستی کے بیچ میں زخموں سے چور بلوچ مورچے پر کھڑا جان بچا رہا ہے۔وہ ناتو de-facto اختیار رکھتا ہے اور ناہی de jure کی طاقت میں ہے۔ اگر آپ کو بلوچ ماما سے کسی نابرابری کا گلہ بھی ہے۔ تب بھی یہ غلط فہمی دور ہونی چاہیئے کہ وہ خود روزانہ سربریدہ لاشیں اٹھاتا پھرتا ہے۔ان کی تو خواتین جنازے اٹھانے میں مصروف ہیں۔بلوچ قیادت چاہے وہ مسلح لوگ ہوں یا پھر "ماڈریٹ جمیوریت پسند سب نے پشتون قوم کے حق سے انکار کبھی نہیں کیا۔اگر برٹش بلوچستان کے 62 ہزار مربع کلو میٹر بمع 35 لاکھ کی آبادی سے اپنی علیحدہ شناخت بنانا آپ درست سمجھتے ہیں تو وہ اس کو بھی قبول کرلے گا مگر اتنا تو کہنے کا حق ضرور رکھتا ہے کہ لائین کے اس طرف 8 لاکھ بلوچ قوم کے 108000 مربع کلو میٹر علاقوں پر مشتمل تین صوبے نمروز،ہلمند اور قندھار کے علاقے کو بھی علیحدہ شناخت دے دیں۔بلوچ ماما ایران کے قبضے میں 180725 مربع کلومیٹر پر موجود 28 لاکھ بلوچ کیلئے خود ہی ایران سے نمٹے گا۔ڈیرہ غازی خان،راجن پور اور جیکب آباد کے 32000 مربع کلو میٹر ویسے بھی مقامی اسٹیبلشمنٹ کا مسلہ ہے۔وہ خودبخود بلوچستان کا حصہ بن جائینگے۔
بڑے لوگ بڑے خواب دیکھتے ہیں ان پر پابندی لگ نہیں سکتی۔مگر یہ بھی حقیقت ہے ایک ہاتھ سے تین ہندوانے نہیں اٹھائے جاسکتے۔ہمیں شک ہے کہ مایوسی کے اس ماحول میں دو مظلوم قومیں کہیں مفروضوں کی بنیاد پر باہم تنازعوں میں نہ الجھ پڑیں۔جن کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے۔
فی الحال ہم اگر صرف لبرل جمہوریت کی ہی سہولت موجودہ ماحول میں حاصل کرپائیں تو وہی کافی ہے۔آو مل کر اس ایک ایجنڈے پر کام کریں جس کا سب کو فائدہ ہوگا۔