غریب بلوچستان اور امیر عہدہ داران

تحریر: محمد نسیم رنزوریار

بلوچستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ایسا کیوں ہے کہ پچھلے ستر برس کے دوران بلوچستان میں چار بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جو صوبہ پاکستان کی گیس کی زیادہ تر ضروریات پوری کرتا ہے اس صوبے کا بیشتر حصہ اس سہولت سے محروم ہے ۔ وہ صوبہ جو کوئلے کی ساٹھ فیصد ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ نوے فیصد اونیکس پتھر کی پیداوار دیتا ہے، جہاں لاکھوں ٹن تانبا زمین میں دبا ہوا ہے، جو سب سے طویل ساحلی صوبہ ہے یہاں کی مختصر سی آبادی کا ستر فیصد حصہ زمین سے ذرا سا اوپر مگرخطِ غربت سے کہیں نیچے رہ رہا ہے؟ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟ کیا بلوچ قوم کی جانب سے کیے جانے والے مطالبات درست ہیں یا بلوچ قوم پرستوں پر لگنے والے الزامات؟ گوادر کی بندرگاہ سے فائدہ کسےمل رہا ہے مقامی بلوچوں کو یا کہ باہر سے آنے والوں کو؟صوبے کو مزید فوجی چھاؤنیوں کی ضرورت ہے یا نہیں؟ آپ کے خیال میں بلوچستان کا بنیادی مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیسے ممکن ہے؟
اس حوالے سے کئی برس پہلے ایک سیاسی و سماجی فورم پہ بحث ہوچکا ہے، جنکے آرائیں نیچے درج ہیں۔

جاوید حیدر، نیدرلینڈ
بلوچ لوگوں کو چاہئے کہ وہ تعلیم، صحت اور دیگر وسائل کی بہتری کے لئے جدوجہد کریں، نہ کہ گوادر میں چند عہدوں کے لئے۔ کیونکہ اس کوشش میں ہوگا یہ کہ عام آدمی کو عہدے ملنے کے بجائے، سردار کے چند دوستوں کو عہدے مل جائیں گے۔ پاکستان میں سردار، ملک، چودھری، ایسٹیبلِشمنٹ اور سیاست دان غریبوں کے حقوق پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔

دانش احمد، امریکہ

سندھ میں کئی بار ملٹری آپریشن ہوا، صوبہ سرحد میں آپریشن ہوا اور اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ بلوچستان میں بھی فوجی آپریشن ہورہا ہے۔ لیکن بلوچستان میں یہ پہلی بار نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پنجاب میں ملٹری آپریشن کبھی نہیں ہوا۔ میرے خیال میں اب اسلام آباد میں آرمی کے اندر آپریشن کی ضرورت ہے۔

فیصل غازی زئی، کراچی

بلوچستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ستر سالوں سے محرومی ہے۔ گوادر پورٹ تو بن سکتا ہے مگر کوئی پالی ٹیکنک سنٹر نہیں بن سکتا۔ پورے بلوچستان میں کتنے کالج ہیں، کتنی یونیورسٹیاں ہیں؟ کیا اللہ نے صرف کراچی اور پنجاب کی ماؤں کو ذہین بچے پیدا کرنے کی صلاحیت دی ہے۔

شکیل اختر، پاکستان

میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ بی بی سی صرف ایسے ہی موضوع کیوں سیلیکٹ کرتی ہے، جس میں پاکستان آرمی کی کھینچائی ہوسکے۔ میں نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی ایسا ٹاپِک زیربحث آئے جس میں جنرل مشرف یا آرمی کو کریڈِٹ جاتا ہو، مثال کے طور پر ساؤتھ امریکہ سے قریبی تعلقات، بگلیہار ڈیم جرات مندانہ موقف، وغیرہ

بینیش صدیقہ، ناظم آباد

بلوچستان میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ فوج کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اس فوج نے ہی پاکستان کے دو ٹکڑے کرائے تھے اور اب تین کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ آج سب مانتے ہیں کہ بنگالی غدار نہیں تھے، انہیں ان کا حق نہیں ملا تھا تو انہوں نے گھی ٹیڑھی انگلیوں سے نکال لیا۔ یہ بات اس وقت کیوں فوج کی سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

عمران خان مینگل، نوشکی

ستاون سالوں کی آزادی کے بعد بھی ہم تمام بلوچ اسلام آباد اور پاکستانی فورسز کے غلام ہیں۔ ہمارے حالات کشمیریوں، عراقیوں اور فلسطینیوں کی طرح ہیں۔

ریاض فاروقی، کراچی

محمد نثار خان، امریکہ:یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اسلام کی پیروی نہیں کر رہا اور یہ مسائل تب تک درپیش رہیں گے جب تک ہم صحیح طریقے سے اسلام کی پیروی نہیں کرتے۔

عامر مستوئی، پاکستان

جب تک آپ انہیں پاکستانی کے بجائے بلوچی کہتے رہیں گے یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔ حکومت کو ان کی جائز ضروریات پوری کرنی چاہیے۔ محبت کی ضرورت ہے ، تمام مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے۔

عبدالسلام بلوچ، جرمنی

سب سی پہلے میں بی بی سی اردو ڈاٹ کام کا شکرگزار ہوں کہ وہ میڈیا کی ذریعہ بلوچ قوم کے مسائل سامنے لے کر آئے ہیں۔ ماضی میں بھی اس قسم کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں لیکن میڈیا کی کوریج نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دفن ہو جاتے تھے۔ میں خبردار کرتا ہوں پاکستان آرمی، پنجاب اور صاحب اقتدار لوگوں کو کہ بلوچ قوم کو اس طرح کی دھمکیاں دینا بند کریں اور ہمیں ہمارا ماضی یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلوچ قوم کے ہر فرد کو سب کچھ یاد ہے اور آج کا بلوچ بہت پختہ، ذہین اور معیار پر پورا اُترنے والا انسان ہے اور ہر قسم کی کارروائی کا بھرپور جواب دینے کے قابل ہے۔

شمس لطیف خان، کویت

سب سے پہلے حکومت کو وہاں کے مقامی لوگوں کو قدرتی وسائل، کانوں اور گیس سے ہونے والے فوائد پہچانے چاہیے اور بعد میں دوسرے صارفین کو ان کی فروخت کرنی چاہیے۔

مبشر عزیز، جرمنی

اگر بلوچستان میں سرداروں کو ختم کر دیا جائے تو نوے فیصد مسائل تو ختم ہو جائیں گے۔ بلوچستان کے حقوق کے نام پر اپنی سرداری کو چمکانے والے ان بدمعاشوں کو فوج کے ذریعہ ختم کر دیں تو تب ہی غریب آدمی کو فائدہ ہوگا ورنہ بلوچستان کے غریب عوام ہمیشہ غریب ہی رہیں گے اور سردار اس چھوٹے صوبے کے حقوق کے نام پر کبھی روئیلٹی کھائیں گے اور کبھی عہدے حاصل کریں گے۔

سید حسین، امریکہ

بلوچستان کے سرداروں کو اس صوبے میں ترقی نہیں چاہیے کیوں کہ اس سے وہ اپنی ریاست اور حکومت کھو دیں گے۔ یہ لوگ بلوچستان میں آرمی چھاؤنیوں کے خلاف ہیں۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر وہ وہاں کچھ غلط نہیں کر رہے تو انہیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں آرمی کی چھاؤنیاں ہیں اور لوگوں کو کوئی شکایت نہیں ہے تو پھر صرف ان لوگوں کو مسئلہ کیوں ہے؟ جواب آسان ہے کہ وہ سردار نہیں چاہتے کہ وہاں کے عوام ترقی کریں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ لوگ بھی اپنے آباؤاجداد کی طرح ہمیشہ ان کی غلامی کریں۔

ذیشان طارق،سیالکوٹ

بلوچستان کے سردار صرف اپنے فائدے کے لیے غریب عوام کی جانوں سے کھیلتے ہیں اور اپنے مالی مفاد کے لیے انہوں نے ہر وقت غریب عوام کا سہارا لے کر کامیابی حاصل کی ہے۔

بالا درجہ ذیل آرائیں اندازاً 2005میں بی بی سی کے ایک سیاسی فورم پہ بحث کے دوران کئے گئے نقائط ہیں کہ بلوچستان میں غربت پسماندگی اور صحت وتعلیمی سہولیات کی فقدان کے ذمہ داران اسی صوبے کے بڑے اشخاص خود ہیں جو ہمہ وقت اپنے اقتیدار دولت ذاتی مفادات کی خاطر غریب عوام کی حقوق غصب کرتے ہی بالا ایوانوں تک پہنچتے ہیں انتہائی دکھ کی بات ہے کہ گیس کی پیداوار والی صوبے کی بیشتر اضلاع خود اس قدرتی نعمت سے محروم ہیں دیگر قدرتی وسائل پر صوبے کے بڑے اور بااثر افراد کی قبضے ہیں جو اپنے الیکشنز لڑانے کیلئے جو رقم خرچ کرتے ہیں وہ سب کے سب اس صوبے کی قدرتی وسائل کی فروخت اور اقتیدار پر آنے کے وقت غریب عوام کا حق کھانے سے نکالتا ہے۔تعجیب کی بات تو یہ ہے کہ بلوچستان کے اسمبلی میں ایسی ممبرز بھی ہیں جو کامیابی کے بعد پھر ووٹ حاصل کردہ یا دینے والوں کے پاس گئے ہیں اور نہ پھر انکے تعلیم و صحت کے سہولیات فکر وسوچ کیا ہے وہ اسلئے کہ بلوچستان میں عوامی رائے کے علاوہ ملکی سطح پر بلوچستان کے بااثر اشخاص کو نوازتے ہی وہ اپنے صوبے کی جو حقوق ہیں وہ سب انکے کھاتے ڈالتے ہیں اپنے صوبے کو ہی آپنے آپ کی کوشش سے پسمانگی اور غربت کی طرف دھکیلتا ہے۔یہاں بلوچستان میں بلدیاتی سے لیکر جنرل الیکشنز تک مرحلے دولت مند طاقت مند اور سفارشات رکھنے والوں کی وجہ سے مفلوج ہیں حتیٰ کہ غریب اپنا آئینی حق ووٹ استعمال کرنے کا حق اور اختیار نہیں رکھتا ہے تو یہی ناسور ہے کہ صحت کے جو بجٹ ہے وہ میرٹ کے بجائے طاقت اور سفارشات کی بنیاد پر تقسیم ہوتاہے تعلیمی کتب وسہولیات کھلم کھلا بازاروں میں ملتے ہیں یعنی یہ ایک اور الگ کاروبار بناہوا چلتا ہے اسکے علاوہ بلوچستان کے اکثریت اضلاع زندگی کے بیشتر سہولیات سے محروم نظرآتے ہیں اور وہ قومی سرداروں کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے زیلی و خیلی میں تقسیم ہوچکے ہیں یہاں ستر سال بعد بھی کوئی ایسے رہنماء نہ ملا کہ وہ بلا تفریق بلا نسل ورنگ کے خدمت کا سلسلہ جاری رکھیں ایک تو بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں کلاشنکوف کلچر اتنے عام ہے کہ ہر قوم کے ملک نواب سردار کے پیچھے کئی مسلح افراد کا ایک دستہ ہوتا جو غریبوں اور بے بسوں کی زمین جائیداد پر قبضہ کرنے کا یہ بھی ایک آسان فارمولہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان کے اکثر اضلاع کی عوام اپنے حقوق کی آواز نہیں اٹھاسکتاہے کیونکہ تمام اقوام کے سربراہوں نے اپنے اقوام کے درمیان میں جنگ جھگڑوں کا پیج ڈالا ہے جو دن بدن وہ اگتے ہی پرورش کرتے ہیں یعنی نسلی رنجشیں یہاں ہمہ وقت پیش پیش ہیں تو ایسی حالات میں تعلیم صحت اور زندگی ضرور مفلوج بن کر عوام مجبوری بے روزگاری کی وجہ سے اپنے قبیلی سربراہ کی دامن پکڑ کر زندگی انکے سایے کے تلے گزارتے ہیں اس طرح مسائل سے لوگ منتشر ہوکر کالجز یونیورسٹیاں اور دیگر ضروری سہولیات سے محروم ہوکر دووقت کی روٹی کیلئے کسی خان ملک نواب اور سردار کے گھر و دستے میں سکیورٹی فرائض انجام دینا سعادت سمجھتے ہیں۔اس عوامل و پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں غربت پسماندگی پرانے رنجشیں افراتفری وغیرہ برقرار ہے کہ بلوچستان میں اجتماعیت کے بجائے ہر دور کے حکومت نے انفرادیت کو ترجیح دی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں