سیاست معیشت کے تابع ہوتی ہے

ہمارے ملک کے سیاست دانوں نے اس اصول کو اپنی پسند کے معنی دے کر اپنے عوام کے حالات بہتراور ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کی بجائے اپنے اپنے خاندا ن کو مالی لحاظ میں مستحکم بنانے کی پالیسی بنا کر وہ سب کچھ کرتے رہے جس کا آج انہیں پائی پائی اور دھیلے دھیلے کا حساب دینا پڑ رہا ہے اور دکھی مسکراہٹ کے ساتھ وہ خود بھی کہہ رہے ہیں:”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“۔بدحال معیشت کو سدھارنے کے لئے یہ فیصلہ ہو چکا ہے جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا ہے آئندہ نہیں ہو سکے گا۔پانامہ لیکس کو دو نمبر معیشت کی سرپرستی سے علیحدگی کا لطیف اشارا سمجھا جاتا تو آج واجد ضیاء انکوائری کمیشن کی رپورٹ پبلک نہ ہوتی۔ملکی حالات اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کسی غلطی کی گنجائش نہیں رہی۔آج ملک کے اثاثے گروی رکھ کر قرضوں کا سود ادا کیا جا رہا ہے۔سیاست دانوں نے درست فیصلے کرنے میں بہت تاخیر کردی ہے۔انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اب فیصلے وہی کرے گا جس نے مشکل حالات میں دوست ممالک سے قرضہ لیا ہے اور دوست ممالک اسی کے ساتھ کھڑے ہوں گے جس کو انہوں نے قرضہ دیا تھا قرضہ دینے والا اپنے مفادات کو دیکھتا ہے۔دوستیاں نہیں پالتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں