میڈیا اور بلوچستان

تحریر: نصیر عبداللہ
اسی سال سقوط ڈھاکہ کے یاد میں منعقد ایک پروگرام میں پاکستان کے معروف صحافی حامد میر یہ اعتراف کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے دو ٹکرے کرنے میں میڈیا کا اتنا ہی قصور ہے جتنا کہ ہماری عسکری قیادت کا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں البتہ میڈیا کا قصور عسکری قیادت سے بھی بڑھ کر تھا۔ اس ضمن میں پاکستان کے کسی گوشے میں بنگالیوں پر ہونے والی ظلم کی ایک خبر نشر نہیں کی جاتی جس سے لوگوں کو ان کی حالتِ زار کا علم ہو۔ ٹھیک اسی طرح کا رویہ آج ملکی میڈیا کا بلوچستان کے ساتھ ہے۔ بلوچستان پر میڈیا بلیک آوٹ کا اصل مقصد اچھی ریٹنگ نہیں بلکہ حقائق سے پوشیدگی ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کی آبادی کوئی دو تین لاکھ ہے ان میں سے ہر خاص و ناس کو بلوچسان کے خبروں پر دلچسپی ہے۔ بلوچستان کے مسائل پر کوئی دو لاکھ ریٹنگ خامخواہ بلوچستان سے آتی ہے حتٰی کہ کراچی اور دوسرے بڑے شہروں کے لوگ اور وہاں موجود بلوچوں کی ایک بڑی آبادی بھی بلوچستان کے بارے میں، اور وہاں کے مسائل کے متعلق جاننا چاہتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا ریٹنگ کا بہانہ بناکر خود کو بری الزمہ قرار دیتی ہے۔ بلوچستان صحافیوں کے لیے ایک ناسور صوبہ بن چکا ہے۔ صحافتی حلقے آئے روز احتجاج کرتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ دیگر بڑے شہروں میں ان کی احتجاج مین اسٹریم میڈیا کی زینت بنتی ہے لیکن بلوچستان میں تو میڈیا پرسن خود کے ہی مسلہ پر مین اسٹریم میڈیا کے نظر نہیں آتے۔ میڈیا انڈسٹری کو مختلف حربوں سے زد و کوب کیا جاتا ہے، بند کیا جاتا ہے۔ معاشی مسائل سے تنگ میڈیا انڈسٹری کے لیے مقتدرہ قوتوں کے پاس ایک موٹی ہتھیار انڈسٹری کے معاشی رگ پر ہاتھ رکھنا سوجھتی ہے اور وہ اسے بارہا آزماتے ہیں۔ بڑے بڑے اخبارات کو یہ کہہ کر بند کردیا جاتا ہے کہ وہ انتشار پھیلاتے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی جو بلوچ طلبا سیاست کی گڑھ ہے یونیورسٹی کے ایک متنازع مسلے پر مقتدرہ قوتوں نے روزنامہ انتخاب کی اشاعت یہ کہہ کر بند کروانا چاہے کہ یہ اخبار ریاست دوست نہیں۔ میڈیا ہاوسسز، صحافی اور بالخصوص اضلاع کے نمائندوں کو طاقتور طبقے اپنی من پسند رپورٹ شائع کرنے پر مجبور کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں اور ایک قبائلی رہنما اپنی بیان کے ساتھ خود کی تصویر کو فرنٹ پیج پر چھاپنے پر زور دیتا ہے۔ مسلح جتھے بڑے بڑے اخباروں پر اپنی سرگرمیوں کی اشاعت فرنٹ پیج پر چاہتے ہیں منع کرنے کی صورت میں انہیں دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔
انتخاب کے ایڈیٹر انور ساجدی بتاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم جو کوریج اور سرکولیشن کے لحاظ سے دس بڑے اخبارات میں سے ہیں۔
انتخاب مستونگ، تربت، پنجگور، آواران اور گوادر میں بہت پڑھاجاتا ہے اور یہ بلوچ بغاوت سے شدید متاثرہ علاقے ہیں۔ انور ساجدی بتاتے ہیں۔ حساس ہونے کے باعث یہاں کے ہمارے رپورٹرز کو کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ اس لیے وہ صحافت سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں جو علاقے کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
اضلاع میں کام کرنے والے نمائندوں ملازمین کی حالتِ زار اس صورت حال کے مزید تلخ پہلو سامنے لاتی ہے۔ خالی جیب کام کرنے والے یہ نمائندے جب معاوضہ یا معاونت کے لیے ادارہ کی طرف جاتے ہین تو ان کے کندھوں پر بوجھ مزید برھا دیا جاتا ہے۔ "یہ یہاں کا معروف محاورہ ہے کہ خود بھی کھاو اور ہمیں بھی کھلاو، حالات اس نہج پر ہیں کہ اب یہ محاورہ بھی دم توڑ گیا ہے۔ جیو ٹی وی اور جنگ سے وابستہ نورزمان اچکزئی بتاتے ہیں۔ بعاوضہ پر کام کرنے والے صحافی جب کسی اعزازیہ یا کانٹریکٹ کی بات کرتے ہیں تو ان کے اداروں کی طرف سے انھیں کہا جاتا ہے” خود کھاو اور ہمیں بھی کھلاو”۔ یہ اس حقیقت کی جانب اشارہ تھا کہ اپنے صحافی ہونے کا فائدہ اٹھاو اور ہم سے کچھ مانگے بنا خود کما کر کھاو۔ اب یہی ادارے صحافیوں سے یہ کہتے ہیں کہ” خود بھی بچو اور ہمیں بھی بچاو۔
بلوچستان کے اکثر متنازع معاملات ہی مین اسٹریم میڈیا پر آتی ہیں اور چٹکیوں میں غائب ہوجاتی ہیں۔ بلوچستان خبروں کے لحاظ سے ایک ایسا مشکل خطہ ہے جہاں بیک وقت بہت کچھ ہورہا ہوتا ہے۔اس خطے میں عالمی مفادات وابستہ ہیں، اسی طرح اس کی سرحدیں بیک وقت ایران اور افغانستان سے ملحق ہیں۔ اور یہاں ایک سی پورٹ ہے جہاں عالمی قوتین نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ گوادر اور بلوچستان کے دیگر نام نہاد ترقی کی جانب گامزن شہروں میں صرف حکومتی ترقیاتی کام ہی میڈیا پر آتی ہیں مسائل نہیں۔
مقامی میڈیا کے لیے کام کرنے والے تقریباً 90 فیصد صحافیوں کو کوئی معاوضہ نہیں باقی تھوڑا بہت پاتے ہیں یا با قاعدگی سے اور وقت پر حاصل نہیں کر پاتے۔ بلوچستان یونین آف جرنلٹس کے سابق صدر صدر عیسیٰ ترین کہتے ہیں۔ صرف ملکی سطح کے بڑے اخبارات یا چینلز ہی بہتر معاوضہ ادا کرتے ہیں، باقی یا تو کوئی معاوضہ دیتے ہی نہیں یا پھر بہت ہی کم ادا کرتے ہیں۔ صحافیوں کی اکثریت اپنی ملازمت سے مطمئن نہیں جب کہ مقامی سطح پر ملازمت کے تحفظ کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا حتی کہ ملکی سطح کے میڈیا سے منسلک صحافی بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل رہنے اور اپنی نوکریاں بچانے کے چکر میں جان جوکھم میں ڈالنے والی خبریں رپورٹ کرنے پر مجبور ہیں۔” بہت کم کیسز میں جہاں صحافی بڑے میڈیا ہاؤسز سے اچھا معاوضہ پاتے ہیں، ان سے پھر اسی معاوضے میں ٹی وی اور اخبار دونوں کے لیے کام لیا جاتا ہے۔
یہاں کو صحافی ایک آل روانڈر کے طور پر کام لیا جاتا ہے۔ حالیہ سالوں میں بلوچستان میں 6 صحافی قتل کئے گئے ہیں۔ اور اس ملک میں صحافی کا مقتول کون ہے یہ ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان بنا رہا ہے، اور ہمیشہ سے مارنے والے نامعلوم رہیں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں