طیارہ حادثہ انکوائری رپورٹ: 22جون ڈیڈلائن

آج کا اداریہ
پاکستان کی تاریخ میں کسی سانحہ کے بعد عوامی غم وغصہ دیکھتے ہوئے انکوائری کمیشن یا کمیٹی تشکیل دینے کی روایت تو ہے مگر رپورٹ کو عوام کے سامنے لانے کی کوئی مثال پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے نہیں ملتی۔چند روز قبل چینی اسکینڈل رپورٹ وزیر اعظم عمران کو موصول ہوئی تھی اسے ماضی کی طرح سرد خانے میں ڈالنے کی روایت سے ہٹ کر اس پر عملدرآمد کے لئے آگے بڑھنے کا حکم دے دیا ہے حالانکہ اس میں پی ٹی آئی کے بعض اہم اور وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کے نام بھی شامل تھے۔ آٹا اسکینڈل رپورٹ ابھی تفتیشی مراحل میں ہے،مگر آثار یہی نظر آتے ہیں کہ اس کے ذمہ داران کے خلاف بھی ممکنہ قانونی کارروائی ہوگی۔اس تناظر میں وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کے اس دعوے پر کہ رپورٹ طیارہ حادثہ 22مئی کے ٹھیک ایک ماہ بعد22جون کو عوام کے سامنے لائی جائے گی کسی جانب سے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا گیا۔وفاقی وزیر ہوابازی نے پراعتماد لہجے میں میڈیا کو بتایا ہے کہ جہاز کس کے کہنے پر اوپر نیچے آیاکچھ نہیں چھپائیں گے۔اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی کے تمام فضائی حادثات کی رپورٹس عوام کے سامنے پیش کر دی جائیں گی۔انہوں نے کہا 2010میں بھی ایک فضائی حادثہ پیش آیاتھا مگر اس کی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی وزیر اعظم عمران خان ہر چیز عوام کا سامنے لانے اور ذمہ داروں کو سزا دلوانے پر یقین رکھتے ہیں۔طیارہ گرنے سے جن عمارتوں کو نقصان پہنچالوگ زخمی ہوئے اور ان کی گاڑیاں جلیں انہیں بھی معاوضہ دیا جائے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے انکوائری رپورٹ سامنے لانے کی بسم اللہ پی ٹی آئی کی حکومت نے کی ہے۔پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ جسٹس حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ بھی سرکاری طور پرتاحال منظر عام پر نہیں آئی۔جو کچھ سامنے آیا ہے وہ بھی پڑوسی ملک بھارت میں چھپا تھااسی لئے عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ منظر عام پر آنے والی حمودالرحمٰن رپورٹ مکمل نہیں۔
طیارہ حادثہ کی انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ یہ کس کی غفلت کا نتیجہ ہے۔فی الحال قیاس آرائی مناسب نہیں۔ البتہ ایک نجی ٹی وی چینل پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ کاک پٹ کے جس وائس ریکارڈر کے ملنے کا اعلان گزشتہ روز کیا گیا ہے وہ تو عالمی میڈیا کے مطابق پہلے دن ہی مل گیا تھا۔اس کے دوبارہ ملنے اور گمشدگی سے شکوک کا ابھرنا فطری امر ہے۔اس کے علاوہ طیارے کی بلندی کے حوالے سے بھی یہ تأثر دیا جارہا ہے کہ پائلٹ کنٹرول ٹاور کی جانب سے دی جانے والی ہدایات کو نہیں مان رہا تھاجبکہ رن وے پر طیارے سے نکلنے والا تیل یہ اشارہ دے رہا ہے کہ طیارے کا ہائیڈرولک سسٹم درست طور پر کام نہیں کر رہا تھا۔حادثے کے بعد رن وے کو دیگر پروازوں کے لئے استعمال کیا جانا بھی توجہ طلب ہے۔دیکھا جائے کہ یہ کام کرنے والوں کی خواہش کیا تھی؟اس حوالے سے بھی ایک مقدمہ سندھ ہائی کورٹ لہٰذافیصلے کا انتظار کیا جانا چاہیئے۔97افراد کو موت کا شکار بنانے والوں کے عزائم کا کھوج لگانا انکوائری کمیٹی اور معزز عدالت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ان لوگوں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جنہوں نے روانگی سے پہلے طیارے کو پرواز کے لئے فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔لاپروائی اور مادر پدر آزاد ہونے کے اس خطرناک رجحان کو سختی سے روکنے کی ضرورت ہے جو سرکاری محکموں کے افسران نے عرصہئ دراز سے اختیار کر رکھا ہے۔اپنے فرائض (سوائے چند کے)کسی کو یاد نہیں حاکم وقت کی خوشنودی ہی ان کے لئے سب کچھ ہے۔ سیاسی وابستگی کو اولیت دی جاتی ہے۔پی آئی اے کو منافع بخش ادارے سے گرا کر اربوں روپے خسارہ والا ادارہ بنانے والے یہی افسران ہیں جو ہر آن اس کوشش میں ہیں کہ یہ ادارہ اونے پونے داموں بکے اور وہ اس میں سے اپنا کمیشن وصول کر سکیں۔طیارہ ساز کمپنی کے ماہرین بھی کراچی میں تمام شواہد کا جائزہ لینے آئے ہیں امید ہے کہ وہ حادثے کے اصل اسباب کا کھوج لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے اپنی کمپنی کی ساکھ پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت بلدیہ ٹاؤن کراچی کی ایک فیکٹری میں سینکڑوں مزدوروں کو زندہ جلا کر ہلاک کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی انکوائری رپورٹ بھی منظر عام پر لائے تھانہ ماڈل ٹاؤن (لاہور) کی حدود میں دن کی روشنی اور میڈیا کی موجودگی میں قتل عام کی ہائی کورٹ کے یک رکنی کمیشن کی رپورٹ سامنے لائی جائے۔ملک میں جب تک قانون شکن عناصر کو سزا نہیں دی جائے گی اس وقت تک قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوگی۔امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق نے بھی نیب کی جانب سے میگا کرپشن کیسز کو تیزی سے نمٹانے کے حالیہ فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے پر فوری عملدرآمد بھی کیا جائے۔ماضی میں بھی نیب کی جانب سے اس قسم کے اعلانات سامنے آتے رہے ہیں مگر عملاً کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔قوم دعووں اور نعروں کی بجائے عملی اقدامات چاہتی ہے۔نیب کے پاس 150میگا کیسز زیر التوا ہیں ان کو دیمک چاٹ رہی ہے۔ وزیر اعظم آج خود کو اور اپنی کابینہ کے ممبران کو احتساب کے لئے پیش کردیں کسی کو احتساب پر اعتراض نہیں رہے گا۔اب نیب نے ثابت کرنا ہے کہ جو توقعات وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اس سے وابستہ کی تھیں وہ ان پر کس حد تک پورا اترتا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں